بعض خواتین جو امام سے ملاقات کے لئے آئیں امام خمینی کے اہلیہ سے بھی ضرور ملتیں ۔وہ طرح طرح کے سوال کرتیں وہ شرعی ، سیاسی ، سماجی اور حتی امام خمینی کی ذاتی زندگی کے بارے میں سوال کرتیں امام خمینی کی اہلیہ ایک ہی طرح کے سوالات سن کر بعض اوقات تھک جاتیں اور ان کا موڈ آف ہوجاتا۔امام کی اہلیہ باقاعدہ انٹرویو کے لئے تیار نہ ہوتیں ایک بار ایران کے اخبار " اطلاعات " جو اس دور کا سرکاری اخبار تھا نے امام خمینی کی اہلیہ کی باتیں انکی تصویر کے ہمراہ اپنے اخبار میں شائع کیں امام خمینی کی اہلیہ یہ دیکھ کر سخت برہم ہوئیں اور اسکے بعد کوئی بھی آپ سے سوال و جواب کرتا تو فورا" کہہ دیتیں اگر تم نے میری گفتگو کو کہیں نقل کرنا ہے تو میں ہرگز گفتگو نہیں کروں گی لیکن جب انہیں یقین ہوجاتا کہ انٹرویو و غیرہ نہیں ہے اور صرف دوستانہ انداز سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو ان سے بات چیت کرتیں ۔
امام خمینی سے ملنے والے یونیورسٹی طلبہ جب نوفل لوشاتو میں آتے تو جب ان سے انکا مضمون پوچھا جاتا تو اکثر یہ بتاتے کہ ان کا مضمون سوکس ہے ایک روز امام خمینی کی اہلیہ نے حیران ہوکر پوچھا کیا سوکس کا مضمون دوسرے مضامین سے زيادہ آسان ہے کہ جس سے پوچھو وہ سوکس پڑھ رہا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دور کے طالبعلم ڈاکٹر شریعتی سے بہت زيادہ متاثر تھے اس لئے انہوں نے بھی اسی مضمون کا انتخاب کیا تھا جو ڈاکٹر شریعتی تدریس کرتے تھے ۔
مہمان نوازی کے حوالے سے امام خمینی کی اہلیہ کا انداز وہی پر قدیمی اور روایتی تھا انہوں نے نوفل لوشاتو کے ماحول میں بھی روایتی مہمان نوازی کے سلسلہ کو جاری رکھا وہ اسی انداز سے مہمانوں کی تواضع کرتیں ۔ اکثر اوقات جب مہمانوں سے کمرہ بھرجاتا حتی کمرے کے وسط میں بھی مہمان خواتین بیٹھ جاتیں تو روایتی طریقہ کار کے مطابق ہر مہمان کے سامنے ایک پلیٹ رکھی جاتی اور اس میں مٹھائی ، ایران کی مخصوص ٹافیاں ، سویان حلوہ اور اس طرح کی دوسری چیزیں رکھی جاتیں ان میں اکثر وہ چیزیں تھیں جو مختلف لوگ ایران سے سوغات کے طور پر لاتے ۔ ایک بار چند نوجوان لڑکیوں نے امام خمینی کی اہلیہ سے گلہ کیا کہ آپ کی مہمان نوازی کا انداز امام خمینی کے شایان شان نہیں ۔ امام خمینی کی اہلیہ نے پوچھا کیسے ؟ ان خواتین نے جواب دیا آپ کو ملنے کے لئے آنے والا ایسا سمجھتا ہے جیسے کوئی آپ کے گھر عید ملنے کے لئے آیا ہے کیونکہ آپ انکو مختلف طرح کی مٹھائیاں اور دوسری چیزیں پیش کرتی ہیں حالانکہ ایک چائے کا کپ اور ایک بسکٹ کافی ہوتا ہے یہاں پر انقلابی ماحول کا احساس نہیں ہوتا۔ امام خمینی کی اہلیہ نے جواب دیا بیٹی یہاں پر جو کچھ ہے ایران سے آپ جیسے مہمان اپنے ہمراہ لاتے ہیں یہ الماری جو تم دیکھ رہی ہے ہو اس طرح کی تحائف سے بھری ہوئی ہے کیا یہ اچھا نہیں کہ میں دور دور سے آنے والے مہمانوں کی ان چیزوں سے مہمان نوازی کروں اور آپ جیسے مہمانوں کو پیش کرنے کی بجائے میں سادہ زیستی اور بناوٹی سادگی کا مظاہرہ کروں ؟ مسائل کو سمجھو اور اسکے بعد کوئی فیصلہ کیا کرو ۔ کیا یہ منافقت نہیں کہ میں یہ سب کچھ اپنے گھروالوں کے ہمراہ کھاؤں اور آپ کے سامنے سادگی اور فقر و غربت کا مظاہرہ کروں اور تمہارے سامنے اپنے آپ کو سادہ زیست اور انقلابی ظاہر کروں ۔ کم وسائل کی وجہ سے اس طرح کی مہمان نوازی ہمارے لئے بہت مشکل ہوتی حاصل کر ایسے حالات میں جب لوگ اعتراض بھی کرتے تھے لہذا تھکاوٹ کااحساس کرنے لگتے لیکن امام خمینی کی اہلیہ کی طرف سے تاکید تھی کہ مہمان نوازی کا یہ روایتی سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔
اور وہ کہتی تھیں مہمان کا احترام واجب ہے یہ سخت زحمتوں اور مشکلات کے بعد مختلف ممالک اور اتنی دور سے آتے ہیں اور بعض اوقات انہیں سخت سردی میں باہر لائن میں لگ کر انتظار بھی کرنا پڑتا ہے لہذا ہمارے لئے مناسب نہیں کہ ہم انکی خاطر تواضع میں کسی چیز سے دریغ کریں ۔ اعتراض کرنے والوں کی باتوں دل پر نہ لو اور اپنے آداب و رسوم پر قائم رہو۔ اس اعتراض کرنے والے گروہ کے علاوہ بھی کچھ لوگ آتے تھے جن کے ذہن میں رہبر انقلاب کے گھر کا تصور قدرے مختلف تھا ۔ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ ایک بہت بڑے اور سجے سجائے ہال میں داخل ہوں گے اور انکی خصوصی خاطر تواضع کی جائیگي ۔ اس طرح کے لوگ بعض اوقات نہایت تعجب سے اپنے ان تاثرات اور تصورات کو بیان کرتے تھے ۔
یونیورسٹی کے جو طلبہ نوفل لوشاتو آتے تھے ان میں اکثریت ہم سے سیاسی موضوعات پر بحث مباحثہ کرنا چاہتی تھی لیکن ہم ان موضوعات سے پرہیز کرتے تھے کیونکہ اس بات کی تشویق رہتی تھی کہ کہیں ہمارے تجزیہ اور تبصرے کو امام خمینی سے منسوب نہ کردیا جائے ۔ مثال کے طور پر ایران میں جو واقعات رونما ہورہے تھے ہر ایک کی اسکی بارے میں اپنی رائے تھے ۔
ایک کہتا امام اس خبر کو سن کر مسکرائے دوسرا کہتا نہیں ان کے چہرے سے ناراضگی محسوس ہوئی پس وہ یہ خبر سن کر پریشان ہوئے تیسرا کہتا پیشانی پر بل پڑتے ہیں لہذا ان کو ناگوار گزرا ہے جو آدمی جس حالت میں امام خمینی کو دیکھتا اس کے مطابق تجربہ کرتا ممکن ہے وہ حقیقت اور صحیح تشخیص نہ ہو لہذا ہماری یہ کوشش ہوتی تھی کہ ہمارے یہ اندازے اور استنباط امام خمینی سے منسوب نہ ہوجائیں ہم اظہار نظر سے پرہیز کرتے ۔
امام خمینی کی اہلیہ کی نفسیاتی صورتحال نجف اشرف کے مقابلے میں یہاں بہت تھی ۔ سید احمد بعض اوقات مذاق مذاق میں کہتے اماں جان ایسا لگتا ہےآپ کی دعا قبول ہوگي ہے اور امام نجف کے یکسانیت کے ماحول سے نکل کر فرانس آگئے ہیں ۔
امام خمینی کی اہلیہ فرانسیسی رسم الخط سے آشنا تھیں ۔ محترمہ نسرین حکمی جو آپ کو ائیرپورٹ لینے کے لئے گئی تھیں کہتی ہیں کہ خانم کے بارے میں میرا تصور کچھ اور ہی تھا میں یہ سوچتی تھی کہ جس خاتون نے ساری زندگی قسم اور نجف کے ماحول میں گزاری ہے اسکو جدید چیزوں کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہونگی اور وہ اپنے بیٹے کی رحلت کے بعد بہت افسردہ ہونگی لیکن میں جونہی ان سے علی ان کے بارے میں میری رائے بدل گئی ۔ آپ ایک خوش لباس اور دکھ رکھاؤ کاخیال رکھنے والی خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی حجاب کاسخت خیال رکھنے والی عورت ہیں ۔ جب ہم ہوائي اڈے سے نوفل لوشاتو آرہے تھے تو وہ راستے میں سڑکوں پر لگے ہورڈنگ اور سڑکوں کے ناموں کو اچھی طرح پڑھ رہی تھیں اور بڑی باریک بینی سے سوالات کرتی رہیں ۔جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو فرنچ زبان آتی ہے تو انہوں نے جواب دیا میں نے شادی سے پہلے فرنچ سیکھی تھی ۔