انقلاب کے بارے میں حضرت امام (رح) کے اساسی کردار سے غفلت نہیں کی جاسکتی۔ اگر امام نہ ہوتے تو انقلاب کا وجود نہ ہوتا۔ جناب عالی کی نظر میں امام کن خصوصیات کے مالک تھے کہ آپ کے ذریعہ اتنے سارے لشکر، توپ، تفنگ اور اسلحوں کے باوجود ایک انقلاب کامیاب ہوگیا۔
حضرت امام (رح) ان تمام پروگراموں کے مشکل گشا تھے۔ آپ صرف خدا، خدا کرتے اور اس کی مرضی کے لئے آگے بڑھتے تھے۔ جب انسان خدا کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو خدا بھی اس کی مدد کرتا ہے اور خدا کے اس کے ساتھ ہے۔ میں امام (رح)کو کما حقہ نہیں پہچانتا اور زبردستی کا اظہار بھی نہیں کر وں گا لیکن میں ایک کمسن طالب علم تھا۔ جب آپ عراق یا لندن یا پیرس میں تھے تو میرے پاس آپ کی ایک تصویر تھی۔ میں نے تصویر کمرہ میں رکھ تھی مثلا جب میں ظہر کے وقت کھانا کھانے جاتا تھا تو کچھ دیر کے لئے اس تصویر کو سینہ ضرور لگاتا اور آپ کی تصویر دیکھتا تھا۔ اور خمینی خمینی کہتا تھا خدا آپ کا حافظ، آپ کا خونخوار دشمن مردہ باد مردہ باد۔ آپ کا خلوص کہ سب کچھ خدا کے لئے کرتے تھے ایک کام تھا مجھے تعلیم دیا تھا۔ اگر آج پوری دنیا آکر میرے سامنے کہے کہ ہم لوگ تمہارے مطیع ہیں، بالاترین مقام لیکن معمولی خود پسندی، خود خواہی یا تکبر اپنے اور اپنے پروگرام میں غیر دینی طریقہ رکھتا ہو تو میرا قبول کرنا محال ہوگا۔ لیکن اگر پوری دنیا مال و دولت ہوجائے اور مجھے دیدیں اور کہیں کہ خدا کے لئے قلم اٹھاؤ اور خدا نخواستہ کسی فرد یا دین کے لئے مشکل ایجاد کردے یا پھر خدا نہ ہو تو محال ہے کہ میں کوئی کام کروں۔
امام نے ہمیں راہ دکھائی ہے اور ہم ان کی راہ پر خدا ہیں کہ آپ کی ساری باتیں خدا اور راہ خدا تھی۔ ایک رات فوج حکومت کو گرانا چاہتے تھے۔ آپ نے خدا سے دعا کی (جولوگ وہاں تھے انہوں نے مجھے یہ بتایا ہے) اور کہتے تھے امام صرف خدا کی جانب سے دستور لیتے تھے۔ یہ خصوصیت ساری چیزوں کو حل کردیتی ہے، میں خود بہت سارے امور انجام دیتا ہوں جیسے مسجد بنانا، ٹرسٹی کمیٹی کو جذب کرنا ہماری تنظیمیں اور اہداف مکمل خیر ہیں اگر خدا قبول کرے۔ یہی امر ہم نے امام سے سیکھا ہے لہذا خلوص اور خدا کی مرضی نے ہمارے جیسے لوگوں کے دلوں میں امام کو عظیم بنادیا۔
امام مدرسہ کے پڑھے تھے لیکن سیاست میں بہترین باتیں بیان کرتے تھے جیسے کہ آپ بہترین سیاسی یونیورسٹی کے پڑھے ہوں پھر کیا ہوا کہ مدرسہ کا ایک طالب جس نے یونیورسٹی کا منہ نہ دیکھا ہو لیکن سیاست کے میدان میں اس درجہ کامیاب رہا ہو؟
سب سے پہلے ہم لوگ اس حدیث کا رخ کرتے ہیں۔ جب انسان چالیس احادیث یاد کرلے تو حکمت کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں۔ امام (رح)، اخبار اور احادیث کے لحاظ سے کامل تھے۔ اس کے علاوہ آپ کی ایک کیفیت ہوتی تھی۔ بعض لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ہمارا علم لدنی ہے لیکن امام کبھی یہ دعوی نہیں کرتے تھے لیکن یہ جگہ اور ہر کام میں خدا مد نظر ہوتا تھا۔ خدا نے ایک دن کے بچہ حضرت عیسی (ع) کو گہوارہ میں پیغمبری دی کہ سب کچھ جانتے تھے۔ ہمارے امام زمانہ (عج) 5/ سال کی عمر میں امامت پر فائز ہوئے۔ یہ حضرت زہرا(س) اور حضرت رسول خدا (ص) کی ذریت تھے۔ امام بھی اسی طرح تھے۔ لہذا رسول خدا (ص) کے قلب مبارک پر پڑنے والا پانی دریا تھا۔ یہ دریا امیر المومنین (ع) ائمہ اطہار اور اسی طرح سلسلہ وار امام خمینی اور امام خامنہ ای تک پہونچا۔ یہی خدا کے ساتھ ہونا معاون اور مدد گار ہوتا ہے اور انہیں رہنمائی ہوتی ہے۔ پیغمبر نے بھی کسی یونیورسٹی میں درس نہیں پڑھا یہ لوگ بھی اسی پیغمبر کی اولاد ہیں همارا عقیدہ یہ ہے یعنی اگر حق تعالی کی طرف سے افاضہ ہو تو ایک عام انسان بھی ایک ایسے مرتبہ پر فائز ہوسکتا ہے کہ پوری دنیا کی ہدایت کرے اور امام (رح) بھی اسی مکتب کے پروردہ تھے۔
لہذا ہم لوگوں نے ایک مرجع تقلید، ایک مجتہد، ایک عارف، ایک عظیم سیاسی انسان، ایک رہبر اور قائد کی حیثیت سے آپ کے دستورات پر عمل کیا اسی طرح آیت اللہ العظمی محمد رضا گلپائگانی اور آیت اللہ مرعشی نجفی جیسے اکابر علماء اور مراجع نے بھی ان کا اتباع کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر انسان کا مقصد اس کا سارا ہم و غم خدا ہو تو وہ کامیاب بھی ہوتا ہے۔ خدا اس کی تایید و نصرب بھی کرتا ہے اور وہ لوگوں کا ہادی اور رہنما بھی بنتا ہے۔