فارسی زبان گروه طالبعلموں کی اسلامی انجمنوں کی اتحادیہ پانچویں کانفرنس کے موقع پر، میں بین الاقوامی روابط کا سکریٹری منتخب ہوا۔ پھر دو تین ماہ بعد نجف آیا۔ تا کہ ادارہ کا امام (رح) سے رابطہ برقرار کروں۔ اپنے ہمراہ ملک کے باہر کی سیاسی صورتحال بالخصوص یورپ اور امریکہ کی ایک مفصل اور جامع رپورٹ تیار کرکے لے گیا تھا تاکہ آپ کو اس سے باخبر کروں اور ایرانی طالب علموں کی کارگردگیوں کو بھی آپ سے بیان کروں۔
اس سے پہلے میں حجت الاسلام دعائی سے تحریری رابطہ کیا۔ جب میں نجف پہونچا تو آقائے دعائی کے کمرہ میں گیا پھر کچھ دیر گفت و شنید کے بعد میں نے ان سے کہا: میرا دل چاہتا ہے کہ ایسے حالات میں آقا کی خدمت میں جاؤں کہ آپ مجھے پہچان نہ پائیں۔ یعنی میں صرف یورپ سے آئے ہوئے ایک طالب علم کے عنوان سے ان کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں تا کہ یہ بھی دیکھوں کہ میرا ان کے بارے میں ایک سیاسی لیڈرکے عنوان سے استنباط کیا ہے اور آپ بھی میرے خاندانی سابقوں کے بغیر مجھ سے سلوک کریں۔ لہذا جب آپ کے دروازہ پر پہونچا تو آقائے دعائی نے آقائے رضوانی (امام خمینی(رح) کے دفتر کے مسئول) سے کہا: یہ یورپ میں مقیم ایک طالب علم ہیں اور امام سے ملاقات کا قصد رکھتے ہیں۔ آقا رضوانی نے خبر دی اور کہا: تشریف لائیے۔
میں ایک خاص جوش و خروش اور روحانی جذبہ کے ساتھ امام کے کمرہ میں داخل ہوا اور گلے مل کر بیٹھ گیا۔ آپ نے میری طرف ایک نظر کی اور کہا: آپ آقائے صادق ہیں یا آقا جواد؟ میں نے آپ کے حافظہ اور حضور ذہنی سے حیران رہ گیا۔ میں نے کہا: ماشاءالله! میں نے ان سے کہا کہ میں کس وجہ سے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ یہ ملاقات بہت ہی یادگار اور دلچسپ تھی۔ البتہ پہلے جلسہ میں جو رپورٹ میں نے تیار کی تھی اسے پیش کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ آپ نے میری طبیعت کی احوال پرسی کی اور اس کے بعد میں نے نجف کی سیاسی فضا پر گفتگو کرنی شروع کردی، میں نے کہا: سنا ہے کہ یہاں پر اسرائیل کی نسبت کوئی حساسیت نہیں ہے اور لوگ اس کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ آپ نے کہا: ہاں! ایک صاحب جنگ کے بعد (1967ء میں عرب اور اسرائیل کے درمیان جنگ) آئے اور میرے پاس بیٹھ کر کہنے لگے؛ اتنا جوش میں کیوں آجاتے ہیں اگر اسرائیل عراق کو بھی لے لے تو اسے نجف کے حوزہ سے کوئی واسطہ نہ ہوگا۔ میں نے دیگر مطالب جو سنے تھے انھیں درد دل کے عنوان سے بیان کیا۔ اس کے بعد تحریری رپورٹ آپ کی خدمت میں پیش کی اور بھی بہت ساری باتیں تھیں کہ اس دن موقع نہیں ملا چونکہ ظہر کے بعد گیا تھا اور مغرب کا وقت ہوچکا تھا۔ آپ جب بھی حکم دیں میں اسی وقت آجاؤں۔ آپ نے کہا: ہم یہاں پر طالبعلمی کی زندگی گذار رہےہیں لہذا مہمان نوازی کے خاطر خواہ اسباب فراہم نہیں ہیں یہ گھر آپ ہی کا ہے یعنی جب آئیں جائیں۔ مصطفی بھی کربلا میں ہیں اگر یہاں ہوتے تو کسی حد تک آپ کی مہمان نواز کر سکتے تھے۔ میں آقا باقر صدر کے گھر پر ہوں (وہ میرے خالو تھے) وہ بھی آپ ہی کا گھر ہے۔ میں بھی ایک روحانی کا لڑکا ہوں اور طالبعلمی کے گھرانے میں پیدا ہواہوں اور پروان چڑھا ہوں اور اس پر فخر بھی کرتا ہوں، لہذا کوئی تکلف کی بات نہیں ہے۔
آنے والے کل کو آپ کی خدمت میں دو جلسہ کیا ایک درس سے واپسی کے بعد نماز ظہر تک تقریبا ایک گھنٹہ گفتگو کی اور ایک عصر کے وقت نماز مغرب تک۔ تیسرے دن بھی ایک دوسرے جلسہ کے لئے امام (رح) کی خدمت میں پہونچا تو اس دفعہ حاج آقا مصطفی بھی موجود تھے۔
امام (رح) کی ملاقات اور ان کے نظریات اور آپ کی رہنمائی میرے لئے طالبعلموں کے نمائندہ کے عنوان بہت ہی قابل قدر تھی اور میں بڑے ہی اطمینان اور کامل اعتماد کے ساتھ یورپ واپس آیا اور ملاقات کی رپورٹ اتحادیہ کے داخلی بولٹن میں درج کردی۔
اس ملاقات اور رپورٹ کے بعد امام (رح) نے انجمن اسلامی کی چھٹی کانفرنس کے موقع پر ایک پیغام بھیجا (صحیفہ امام، ج 2، ص 282-283) اور ہم نے آپ کے پیغام کو کانفرنس میں پڑھا اور اس طرح سے انجمن اسلامی قومی حمایت کی حامل ہوئی اور اس کے بعد سیاسی، اعتقادی اور تنظیمی لحاظ سے ایک عظیم تحریک پیدا ہوئی۔
خاطرات سیاسی اجتماعی ڈاکٹر صادق طباطبائی، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح)، ج 1، ص 79-81