عورت اور مرد دونوں نے اپنی روحانی اور معنوی زندگی کی راہ میں برابر سے استفادہ کرنے کا حق رکھتی ہیں، دونوں خدا کے بندے ہیں اور عبودیت و بندگی انتخاب کرنے کا حق رکھتی ہیں اور اس امر میں کسی کو دوسرے پر کوئی رجحان اور ترجیح نہیں ہے، ہر ایک اپنے اپنے اعمال کا جواب دہ ہے۔ ان میں سے کوئی بھی خاص جنس سے منسوب ہونے کی بنا پر دوسرے کو عبادت کی خاص شکل بجا لانے پر مجبور نہیں کرسکتا یعنی یہ حق نہیں رکھتا کہ تم اس طرح عبادت کرو اور اس انداز سے خدا کی بندگی کرو بلکہ ہر ایک خدا اور رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق بزرگی کرنے کا حق رکھتا ہی اور اس میں وہ اپنی مرضی کا مختار اور اپنے کام میں آزاد اور مستقل ہے۔ کوئی بھی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
حساب و کتاب کے وقت بھی ہر ایک تنہا ہی خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ روحانی زندگی یعنی روح کو پاکیزہ بنائے اور اس میں الہی و خدائی رنگ بھرنے، خدا سے قریب ہونے اور اس سے راز و نیاز کرنے میں سب آزاد ہیں۔ کوئی کسی کے حکم اور طریقہ کا پابند نہیں ہے۔ دین مبین اسلام میں دین کا ماننا اور قبول کرنا انسان کے اپنے ارادہ اور اختیار سے ہے اور اس کے قبول کرنے میں کوئی جبرو اکراہ نہیں ہے اور کوئی بھی یہاں تک انبیاء بھی (ہمدردی کے عنوان) سے خدا کے بندوں کو عبادت پر مجبور نہیں کرسکتے۔ خدا نے بندوں سے یہی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ارادہ اور اختیار سے خدا کی عبودیت اور بندگی کریں اور بندگی کی ارزش اور اہمیت بھی اختیاری ہونے ہی میں ہے۔ اس کے درمیان انبیائے الہی کا فریضہ خدا کے پیغام کو بندوں تک پہونچانا ہے اور انہیں راہ حق و ہدایت بتانا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو اپنے ارادہ اور اختیار سے اس راہ کو انتخاب کرتا یا اسے ٹھکراتا اور رد کرتا ہے اگر چہ اس کی سعادت اس راہ کے قبول کرنے میں ہے۔
جہاں پر اس کی جنسیت کا تعلق ا س کے جسمانی پہلو سے ہے اور عبادت حقیقت انسان (کہ وہی روح) ہے، سے تعلق رکھتی ہے۔ اور مرد و عروت کی تذکیر و تانیث کی روح میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ قرآن کریم میں جنس کی تصریح کے ساتھ اس مشترکہ حقیقت کے بارے میں فرمایا ہے: "مومن مرد اور عورت میں سے جو بھی عمل صالح انجام دے ہم اسے پاکیزہ حیات دیں گے اور ہم انهیں ان کے عمل سے بہتر جزا دیں گے" یا ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: "ہم انہیں جنت میں داخل کریں گے اور وہ ذرہ برابر ظلم نہیں دیکھیں گے۔"
انسانی اقدار کے بارے میں بھی عمومی طور پر انسانوں کی جانب توجہ دی جاتی ہے یا پھر صراحت کے ساتھ مومنہ عورتیں اور مومن مرد سے خطاب ہوتا ہے: مسلم مرد اور عورت، مومن مرد اور عورت، عبادت گزار مرد اور عورت، صابر مرد اور عورت...... دوسری طرف ذاتی اعتبار سے کسی کو دوسرے پر فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہے۔
روحانی اور معنوی زندگی کے اعتبار سےمرد اور عورت دونوں مساوی اور برابر ہیں۔ خدا کے نزدیک ہر ایک کی فضیلت اور برتری، اس کا فضل و شرف تقوی، بندگی اور خالصانہ عبادت سے ہے نہ جنس سے۔ جو جتنا عمل کرے گا اور جیسا عمل کرے گا ویسا ہی اجر و ثواب پائے گا۔ اسے ویسا ہی مقام و مرتبہ ملے گا۔ معیار خدا کی خالصانہ بندگی، عمل صالح اور کار خیر ہے۔ کیونکہ خدا نے انسان کو عقل و شعور کی دولت دے کر اشرفت المخلوقات کے تاج سے نوازا ہے اور اسے خیر و شر، اچھائی اور برائی کے راستوں کو بھی بتادیا ہے۔ اب یہ انسان کو اختیار کرنا ہے کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے۔