کائنات

تخلیق کائنات کا مقصد؟

کوئی بہی عقلمند بے مقصد قدم نہیں اٹہاتا ہے۔ ہر وہ سفر جو علم و عقل کی روشنی میں طے کیا جائے اس کا ایک مقصد ضرور ہوگا۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب انسان کوئی با مقصد کام انجام دیتا ہے تو اس کا مقصد اپنی ضروریات پورا کرنا ہوتا ہے لیکن جب خدا کوئی کام انجام دیتا ہے تو اس میں بندوں کا فائدہ پوشیدہ ہوتا ہے کیونکہ خدا ہر چیز سے بے نیاز ہے۔

تخلیق کائنات کا مقصد؟

کوئی بہی عقلمند بے مقصد قدم نہیں اٹہاتا ہے۔ ہر وہ سفر جو علم و عقل کی روشنی میں طے کیا جائے اس کا ایک مقصد ضرور ہوگا۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب انسان کوئی با مقصد کام انجام دیتا ہے تو اس کا مقصد اپنی ضروریات پورا کرنا ہوتا ہے لیکن جب خدا کوئی کام انجام دیتا ہے تو اس میں بندوں کا فائدہ پوشیدہ ہوتا ہے کیونکہ خدا ہر چیز سے بے نیاز ہے۔

اب ذرا اس مثال پر توجہ فرمائیے:

ایک زرخیز زمین میں ایک باغ لگایا جاتا ہے جس میں طرح طرح کے پھل دار درخت اور رنگ برنگ کے خوشنما اور خوشبودار پھول ہیں وہیں ان درختوں کے درمیان کچھ بیکار قسم کی گاس بہی اُگی ہوئی ہے۔ لیکن جب اس باغ کی آبیاری کی جائے گی تو گاس کو بہی فائدہ پہونچے گا۔

یہاں دو مقصد سامنے آتے ہیں:

اصلی مقصد: پہل دار درختوں کی اور پھولوں کی آبیاری.

ثانوی مقصد: گاس کی آبیاری.

بغیر کسی شک و تردید کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آبیاری کا سبب اصلی مقصد ہے ثانوی مقصد نہیں۔

اگر اس باغ میں صرف ایک پھل دار درخت باقی رہ جائے جس سے تمام مقاصد پورے ہورہے ہوں، تب بھی آبیاری ہوتی رہے گی اور اس بنا پفر کوئی عقل مند آبیاری سے دستبردار نہیں ہوگا کہ ایک درخت کی خاطر کتنی بیکار چیزیں سیراب ہورہی ہیں۔ البتہ اگر باغ میں ایک درخت بہی نہ رہے تو اس صورت میں آبیاری ایک بے مقصد کام ہوگا۔

یہ وسیع و عریض کائنات بہی ایک سر سبز و شاداب باغ کی مانند ہے۔ انسان اس باغ کے درخت ہیں۔ وہ لوگ جو راہ راست پر گامزن ہیں اور روحانی و اخلاقی ارتقاء کی منزلیں طے کر رہے ہیں، وہ اس باغ کے پھل دار درخت ہیں اور خوشبو دار پھول ہیں۔ لیکن وہ افراد جو راہ راست سے منحرف ہوگئے اور جنہوں نے گناہ کی راہ اختیار کی، ارتقاء کے بجائے پستیوں میں گرتے چلے گئےایسے لوگوں کو اس باغ کی گاس وغیرہ کہا جا سکتا  ہے

یہ چمکتا ہوا آفتاب، یہ نسیم جانفزا، یہ آسمان و زمین کی پے پناہ برکتیں، گناہگاروں اور ایک دوسرے سے دست و گریباں  کرنے والےافراد کے لیے پیدا نہیں کی گئی ہیں، بلکہ یہ ساری کائنات اور اس کی تمام نعمتیں خدا کے نیکو کار بندوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور وہ دن ضرور آئے گا جب یہ کائنات ظالموں کے ہاتہ سے نکل کر صالحین کے اختیار میں ہوگی۔

ان الارض یرثہا عبادی الصالحون

قیناً میرے صالح بندے اس زمین کے وارث ہوں گے۔

یہ صحیح ہے کہ دنیا میں ہر طرف گناہگاروں اور خدا ناشناس افراد کی اکثریت ہے لیکن کائنات کا حسنِ نظام بتا رہا ہے کہ کوئی ایسا فرد ضرور موجود ہے جس کی خاطر یہ دنیا سجی ہوئی ہے۔ حدیث میں اس بات کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:

بیمنہ رزق الوریٰ و بوجودہ ثبتت الارض والسماء

ان کی (حجت خدا کی) برکت سے لوگوں کو رزق ملتا ہے اور ان کے وجود کی بنا پر زمین و آسمان قائم ہیں۔

اسی بات کو خداوند عالم نے حدیث قدسی میں پیغمبر اسلام (ص) کو مخاطب کرکے بیان فرمایا ہے:

لولاک لما خلقت الافلاک

اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو نہ پیدا کرتا۔

زمانۂ غیبت میں وجود امام علیہ السلام کا ایک فائدہ اس کائنات ہستی کی بقاء بھی ہے۔

وہ لوگ جو حقائق سے بہت دور ہیں وہ زمانۂ غیبت میں وجود امام (ع) کے لئے صرف شخصی فائدے کے قائل ہیں اور اس عقیدے کے سلسلے میں شیعوں پر طرح طرح کے اعتراضات کیا کرتے ہیں جبکہ وہ اس بات سے بالکل غافل ہیں کہ خود ان کا وجود امام علیہ السلام کے وجود کی بنا پر ہے۔ یہ کائنات اس لئے قائم ہے کہ امامِ قائم (عج) پردۂ غیبت میں موجود ہیں اگر امام نہ ہوتے تو نہ یہ دنیا ہوتی اور نہ اس دنیا کے بسنے والے.

ای میل کریں