تحریر: علی اصغر سرگودھا
جنت البقیع میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب الگ ایک تنہا قبر نظر آتی ہے، جس کے اردگرد چھوٹی سی چار دیواری بنی ہوئی ہے، اس قبر کے قریب آپ کو ایک عدد مولوی اور ایک شرطہ(پولیس والا) کھڑا ہوا نظر آئے گا اور ساتھ ہی ایک فلیکس لگا ہوا ملے گا، جس پر اردو، عربی، فارسی اور انگلش میں جنت البقیع میں موجود قبروں کی کوئی اہمیت نہ ہونے جیسے بیانات لکھے ملیں گے۔ جب اس قبر کے متعلق پوچھا جائے تو وہاں موجود مولوی صاحب آپ کو شرک و بدعت کے متعلق احادیث سنائیں گے، مزید اگر آپ قبر کے متعلق جاننے کی کوشش کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ پاس کھڑا ہوا شرطہ آپ کو پکڑ کر قبرستان سے باہر چھوڑ آئے۔
اہل تشیع حضرات کو تو اس قبر کے متعلق علم ہے، لیکن اہل سنت برادران کو قطعی طور پر معلوم نہیں کہ یہ قبر کس ہستی کی ہے۔ یہ قبر مبارک جنابِ فاطمہ بنت حزام کی ہے، جن کو ام البنین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ہستی ہیں، جو سیدہ کائنات فاطمہ سلام اللہ علیھا کے بعد زوجہ امام علیؑ بنیں اور کائنات میں وفاداری میں مشہور ہستی ابوالفضل العباسؑ کی والدہ محترمہ ہیں۔ یہ اتنی عظیم خاتون ہیں کہ جنت کے سرداروںؑ کے بھائی کی جنت ان کے قدموں میں ہے۔ جس خاتون کو خود علی المرتضیٰ ؑ نے اپنی زوجیت کے لیے چنا ہو، وہ کس شان کی مالکہ ہوں گی۔
جناب اُم البنینؑ کا تعلق سعودی عرب کے مشرقی شہر الاحساء سے تھا، جہاں آج بھی ان کے میکے خاندان کے افراد آباد ہیں اور اگر آپ وہاں جائیں تو نہایت آسانی سے ان کو پہچان سکتے ہیں، کیونکہ اس قبیلہ کے افراد کی نشانی ان کی بڑی بڑی آنکھیں، لمبے قد اور خوبصورتی ہے۔ ام البنینؑ کے چار بیٹے کربلا میں شہید ہوئے، جن میں عباسؑ، عثمان، عبداللہ و جعفر ہیں، لیکن سب سے زیادہ مشہور جناب عباسؑ علمدار ہوئے۔ ام البنینؑ کربلا میں موجود نہ تھیں۔ جب اسیران کربلا کا قافلہ مدینہ پہنچا تو کسی نے آپ کو آپ کے بیٹوں کی شہادت کی خبر سنائی تو آپ نے فرمایا مجھے صرف حسین بن علیؑ کے بارے میں بتاو، جب آپ کو بتایا گیا کہ حسین بن علی آپ کے چار بیٹوں سمیت کربلا میں شہید کر دیئے گئے تو اس وقت آپ نے کہا اے کاش میرے بیٹے اور جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے، میرے حسینؑ پر فدا ہوتے اور وہ زندہ رہتے۔ سبحان اللہ جس ماں نے آلِ نبیؑ سے اتنی وفاداری نبھائی، اس ماں کا بیٹا وفا کا پیکر کیونکر نہ ہوتا۔
جنت البقیع کے سامنے جو مین روڈ ہے، وہاں ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک پُل بنا دی گئی ہے، جب یہاں پُل نہیں ہوا کرتی تھی، تب پرانی سڑک کے کنارے میں ایک چھوٹا سا باغیچہ ہوا کرتا تھا، قدیمی سعودی شیعوں کے مطابق اسے باغیچہ علی اکبؑر کہا جاتا تھا اور ان کے مطابق اہل بیتؑ کی کربلا روانگی کے وقت بنی ہاشم میں پیچھے رہ جانے والے افراد اور کربلا کے مسافروں کی آخری ملاقات یہاں ہوئی تھی اور جناب ام البنینؑ یہاں اکثر آکر بیٹھا کرتی تھیں۔ پنجاب کے مشہور ذاکر بابا نبی بخش جوئیہ مرحوم جناب ام البنینؑ کا واقعہ بہت پڑھا کرتے تھے، ان کی درد بھری آواز میں مصائب ابھی تک کانوں میں گونجتے ہیں اور دل گریہ کرتا ہے۔
وہ پڑھتے تھے کہ جب منادی والے نے مدینہ منورہ میں منادی کی کہ اے مدینہ والوں کربلا والوں کا قافلہ لوٹ آیا ہے اور حسینؑ بن علؑی اپنے بیٹوں اور بھائیوں سمیت مارے گئے تو جناب ام البنینؑ جناب عباسؑ کے بیٹے عبیداللہ سے پوچھتی ہیں یہ کس حسین کی شہادت کی خبر سنائی جا رہی ہے تو عبیداللہ نے کہا دادی یہ میرے چچا اور آپ کے بیٹے حسینؑ کی شہادت کی خبر ہے تو ام البنین فرماتیں، نہیں میرے عباسؑ کے ہوتے ہوئے بھلا حسینؑ کو کون ہاتھ لگا سکتا ہے، پھر بی بی جنت البقیع میں آئیں اور جناب زہراء سلام اللہ علیھا کے قبر اقدس پر کھڑے ہوکر اتنا گریہ کیا کہ اہل مدینہ اکٹھے ہوگئے اور ساتھ گریہ کرنے لگے۔ ام البنینؑ جب تک زندہ رہیں، کربلاء والوں کی ایسی عزاداری برپا کرتی رہیں کہ اپنوں کے ساتھ ساتھ دشمن بھی رو پڑتے۔