سارے عالم کی وفا عباس(ع) میں ہے
تحریر و تحقیق: سویرا بتول
عباس ابنِ علی پیکرِ وفا، شجاعت و بہادری میں با کمال، خوبصورتی میں بے مثال، دعائے سیدہ، ڈھارسِ امام حسینؑ، امیدِ جناب ِ زینبِ عالیہؑ، قمر بنی ھاشمؑ، سقائے سکینہؑ، علمدارِ لشکرِ حسینی اور شہنشاہِ وفا کے نام سے مشہور ہیں، جنہیں حیدرِ ثانیؑ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی والدہ گرامی کا نام فاطمہ ام البنینؑ تھا جنکا تعلق عرب کے ایک مشہور و معروف اور بہادر قبیلے بنی قلاب سے تھا وہ ولیہ خدا، عرفانِ الٰہی، محدثہ، فقیہ اور معرفتِ اھلِ بیت اور علومِ ظاھری اور باطنی کی حامل تھیں۔ حضرت عباسؑ کو افضل شہداء، غازی، باب الحوائج، ابوالقریہ، ابو الفضل، عبد الصالح، علمدارِ کربلا اور پاسدار و پاسبانِ حرم بھی کہا جاتا ہے۔ جنابِ عباس علمدار ؑشکل و صورت اور شجاعت میں اپنے بابا مولائے مشکل کشاءؑ کے بہت مشابہ تھے۔ عرب و عراق کے شجاعانِ روزگار میں آپکا شمار ہوتا تھا۔ خوبصورتی کا یہ عالم تھا کہ اکبرؑ و قاسمؑ جیسی حسین ترین ہستیوں کی موجودگی کے باوجود بھی قمرِ بنی ہاشم کہلائے گئے۔ درد مند ایسے تھے کہ بچے بوڑھے سب آپ کے گرویدہ تھے اور شجاعت ایسی کہ ہر ایک کی امیدوں کا مرکز تھے۔ امام عالی مقامؑ کو جنابِ عباس پر اس قدر اعتماد تھا جیسے رسولِ خدا کو مولائے متقیانؑ پر۔
جنگِ صفین میں جنابِ عباسؑ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے مالکِ اشتر کی سپہ سالاری میں فرات پر حملہ کیا اور امامؑ کی فوج کے لیے پانی کا بندوبست کیا۔ جنگِ صفین میں شام کے ابنِ شعثاء اور اسکے سات بیٹوں کو واصلِ جہنم کیا۔ جنابِ عباس کی عظمت کے حوالے سے صادقِ آلِ محمدؑ کی ایک خوبصورت حدیث ملتی ہے کہ ہمارے چچا عباسؑ بصیرت شعار، دور اندیش، مضبوط ایمان کے حامل، جان باز اور ایثار کی حد تک امام عالی مقام کی رکاب میں جہاد کرنے والے ہیں۔ جنابِ عباس نے بلند ترین مقاصد اور عظیم ترین اصولوں کی خاطر شہادت کو گلے لگایا کہ جنکی خاطر سیدا لشہداء ؑ نے قیام کیا تھا۔ جنابِ عباس نے انسانیت کی آزادی، عدل و انصاف کے فروغ، قرآنی احکامات کی نشر و اشاعت اور دینِ الٰہی کی بقاء اور نصرتِ امام کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ آپکے وجود پاک نے حریت و آزادی اور کرامت و شرف کی مشعل روشن کی۔ آپؑ نےفنِ حرب سیکھا کر شھداء کے قافلوں کی قیادت کی اور اطاعتِ امام کا پیام دیا۔
روز عاشور امام عالی مقام ؑ نے انکو پیاسے بچوں کے لیے پانی لانے کی اجازت دی۔ خیبر شکن کے بیٹے کی میدان میں آمد سے فوجِ اشقیاء میں ایک کہرام برپا ہو گیا جس کی مرزا دبیر نے یوں منظر کشی کی ہے
خیبر شکن کے لال کی آمد ہے صف شکن
گرتی ہے فوج فوج پہ، پڑتا ہے رن پہ رن
تیغِ خدا کی تیغ کا سایہ ہے تیغ زن
غلطاں کہیں قدم ہے، کہیں سر، کہیں بدن
نے حوصلہ، نہ بغضِ امامِ مبیں رہا
اب دل میں بھاگنے کے سوا کچھ نہیں رہا
مگر مصلحتِ الٰہی یہی تھی کہ جنابِ عباسؑ شھید ہو جائیں اور یوں آپکے دونوں شانے قلم کر دیئے گئے اور آپ ؑ نےشہادت پائی۔ آپ کی شھادت پر سید الشھداءؑ نے فرمایا: "الان انکسر ظہری وقلت حیلتی" اب میری کمر ٹوٹ گئی اور میں بے سہارا ہوگیا۔
آخر الزمان علیہ السلام زیارت ناحیہ مقدسہ میں (ع) نہایت شد و مد سے ذکر فرماتے ہیں ارشاد ہوتا ہے۔ "السلام على ابي الفضل العباس بن امیر المومنين المواسي اخاه بنفسہ ابو الفضل العباس بن امیر المومنین" سلام ہو جنہوں نے کربلا میں اپنے بھائی پر جان نثار کر دی اور پانی کی طلب میں اپنے دونوں ہاتھ قربان کر دہئے۔ جنابِ عباسؑ کی سیرت سے اطاعت ِ امامؑ کے ساتھ ساتھ ولی خدا کے حکم پر سر تسلیم خم کر دینے کا درس بھی ملتا ہے۔ عباسؑ امام نہ تھے مگر نبض شناس امامت کا درس ضرور رکھتے تھے۔ منبع ِ شجاعت ہونے کے باوجود جنگ کی اجازت نہ ملنے پر یقینا محسوسات میں ایک تلاطم برپا تھا۔ جذبات میں مد و جزر کی کیفیت تھی مگر آپؑ نے حکم ِ امامؑ پر جذبات اور اندرونی طوفان کو پس پشت ڈال دیا۔ اگر آج ہم نصرتِ صاحب الزمانؑ کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے حضرت ِ عباس ؑ کی طرح جری، باوفا، پاکدامن، باعفت اور امام ِ وقت کے مطیع ہو جائیں۔ ولی خدا کی اطاعت و فرمانبر داری میں ہمارے ذاتی جذبات و محسوسات راہ میں حائل نہ ہوں۔ چاہے فتح ایک قدم کے فاصلہ پر ہی کیوں نہ ہو مگر امامِ وقت کی رضایت شامل نہ ہو تو وہیں سے پلٹ جاؤ یہی عباس شناسی کا درس ہے۔