حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یوم بعثت کی مناسبت سے ایرانی قوم اور امت مسلمہ سے ٹیلی ویژن پر براہ راست خطاب کیا۔
اپنے اس خطاب میں آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ یوکرین امریکا کی بحران پیدا کرنے کی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: ہم یوکرین میں جنگ روکے جانے کے حامی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں جنگ ختم ہو جائے تاہم کسی بھی بحران کا حل تبھی ممکن ہے جب اس کی جڑوں کو پہچان لیا جائے، یوکرین کے بحران کی جڑ امریکہ کی بحران ساز پالیسیاں ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کو جدید جاہلیت کا واضح اور مکمل نمونہ بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں امریکا میں زیادہ شدید اور زیادہ خطرناک جاہلیت ہے۔ امریکا ایک ایسی حکومت ہے جس میں ناپسندیدہ اخلاقیات اور بے راہ روی کی ترویج کی جاتی ہے اور وہاں امتیازی سلوک روز بروز زیادہ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ قومی سرمایہ روز بروز دولتمندوں کی طرف بڑھایا جا رہا ہے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں مزید کہا: "داعش، امریکیوں کا پروردہ کتا تھا اور میری نظر میں آج یوکرین بھی اسی پالیسی کی بھینٹ چڑھا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یوکرین کے حالات، امریکی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور امریکا نے ہی یوکرین کو اس حالت تک پہنچایا ہے۔ اس ملک کے داخلی معاملات میں ٹانگ اڑانا، حکومتوں کے خلاف اجتماعات کرانا، طرح طرح کی بغاوتیں کرانا اور مخالفین کے اجتماعات میں امریکی سنیٹروں کی شرکت کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسی کے ساتھ ہم یہ بھی واضح کر دیں کہ ہم دنیا میں ہر جگہ جنگ اور تخریب کاری کے خلاف ہیں، عوام کے مارے جانے اور اقوام کے بنیادی ڈھانچوں کے انہدام کو صحیح قرار نہیں دیتے اور یہ ہمارا اٹل موقف ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ہم مغرب والوں کی طرح نہیں ہیں کہ اگر بم افغانستان میں شادی کی تقریب پر گرایا جائے تو اسے دہشت گردی سے جنگ کا نام دے دیں! امریکا، مشرقی شام میں کیا کر رہا ہے؟ وہ لوگ شام کے تیل اور افغانستان کی ثروت کو کیوں چرا رہے ہیں؟ کیوں مغربی ایشیا کے علاقے میں صیہونیوں کے جرائم کا بچاؤ کرتے ہیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ہم یوکرین میں جنگ روکے جانے کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہاں پر جنگ ختم ہو لیکن کسی بھی بحران کا علاج صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب بحران کی جڑ کو تلاش کیا جائے۔ یوکرین میں بحران کی جڑ، امریکا اور مغرب والوں کی پالیسیاں ہیں، ان کی شناخت کی جانی چاہیے، اسی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جانا چاہیے اور اگر اقدام ممکن ہو تو اقدام کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عوام، ملکوں کی خودمختاری کا محور ہیں، اگر یوکرین کے عوام، میدان میں آجاتے تو اس وقت یوکرین کی حکومت اور عوام کی حالت ایسی نہیں ہوتی۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے عید بعثت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سے اپنے خطاب میں ایرانی قوم اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو عید بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے 'عقل پسندی کے فروغ' اور 'اخلاقی تعلیمات کی ترویج' کو اسلامی اقدار کی دو اہم کڑیاں بتایا اور کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے ذریعے ہی جاہلیت کے دور میں جزیرۃ العرب کے لوگ، جن کا خاصہ گمراہی، نادانی، بڑے بڑے فتنے، بے جا تعصب، تشدد اور ہٹ دھرمی، گھمنڈ، حق کو تسلیم نہ کرنا، اخلاقی و جنسی بے راہ روی جیسی برائياں تھیں، ایک متحد، قربانی دینے کے لئے آمادہ، بافضیلت، انتہائي اچھی صفات کے حامل اور دنیا کے با وقار عوام میں تبدیل ہو گئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انسانیت کے لیے اسلام اور بعثت کا سب سے بڑا تحفہ، جاہلیت سے مقابلے کے لیے 'تفکر و معقولیت' اور 'پاکیزگي اور اخلاقی تعلیمات' تھیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب میں وسیع پیمانے پر ماڈرن جاہلیت کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج جدید جاہلیت کا سب سے واضح اور مکمل مظہر، امریکا کی مافیا حکومت ہے جو بنیادی طور پر ایک بحران پیدا کرنے والی اور بحران کے سائے میں زندہ رہنے والی حکومت ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ بعثت اور اسلام نے اس بظاہر ناممکن کام کی راہ ہموار کر دی، کہا: بعثت کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ اگر عوام، الہی ارادے کی راہ میں آگے بڑھیں تو، انسانی اندازوں کے مطابق جن کاموں کی انجام دہی ناممکن نظر آتی ہے، انھیں بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کے نظریے کے برخلاف آنحضرت کی تحریک کا نقطۂ عروج، حکومت کا قیام تھا جس کے لیے تمہیدی اقدامات خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انجام دیے۔