انسان کی سرفرازی اور سربلندی کا ایک مظہر خدا کی دی ہوئی دنیاوی اور اُخروی نعمتوں کا صحیح استعمال ہے اور ان نعمتوں تک انسان کے پہونچنے کا راستہ ہدایت الہی کا قبول کرنا ہے؛ کیونکہ جب تک انسان، اللہ کی ہدایتوں کو قبول نہیں کرے گا اس وقت اس کے لئے ان نعمتوں تک رسائی ممکن نہیں ہوگی۔ اگر چہ اس کے قبول کرنے سے اکثر انسان غافل اور بے خبر ہیں اور اتنی ساری نعمتوں کو ضائع کردیا ہے اور صرف چند روزہ دنیا کے دلدادہ اور عاشق ہوکر رہ گئے ہیں۔
چنانچہ امام علی (ع) اپنی عارفانہ مناجات میں فرماتے ہیں:
"خدایا! تعریف صرف تیرے لئے سزاوار ہے کہ تو خالق اور معبود ہے اور تو نے بندوں کی درستگی اور صلاح کی طرف امتحان لیا ہے۔ تو نے آخرت کا گھر خلق کیا اور رنگ برنگ کی نعمتوں سے مالا مال کیا اور اس میں انواع و اقسام کے مشروبات، ماکولات ..... پھلوں اور کھیتاں قرار دیں۔ اس کے بعد تو نے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ وہ انسانوں کو ان گھروں اور نعمتوں کی طرف دعوت دیں۔ لیکن افسوس کہ لوگوں نے نہ ان دعوت کرنے والے کی دعوت پر لبیک کہی اور نہ جس کی تو نے ترغیب دلائی اس کی طرف مائل ہوئے اور نہ ہی جس کی طرف تو نے تشویق کی اس کی طرف قدم بڑھایا۔ مردار کے لاش پر گر پڑے کہ اس کے کھانے سے رسوا ہوگئے اور اس کی دوستی میں متحد ہوگئے۔"
حضرت امام علی (ع) کی نظر میں ہدایت یافتہ انسان اعلی سطح پر دنیاوی نعمتوں سے بھی بہرہ مند ہیں اور اُخروی نعمت سے بھی فیضیاب ہیں۔ اسی بنیاد پر آپ (ع) نے فرمایا ہے: اے بندگان خدا! متقین (جو سورة بقرة کی آیت 2/ کی روشنی میں ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہیں) اس چند روزہ دنیا سے سلامتی کے ساتھ چلے گئے اور جاودانی آخرت کے مالک ہوئے اور دنیا والوں کے ساتھ دنیا میں شریک رہ کر چلے گئے۔ لیکن دنیا والے ان کی آخرت میں شریک نہیں ہیں۔
پرہیزگاروں نے دنیا کے بہترین گھروں میں قیام کیا، بہترین دنیاوی غذائیں کھائیں اور انہی لذتوں سے آشنا ہوئے جو دنیا والے محسوس کرتے تھے اور دنیا سے فائدہ اٹھاتے تھے جس طرح سرکش اور متکبر لوگ بہرہ مند ہوتے تھے۔ اس کے بعد اس دنیا سے بہترین اور کافی زاد سفر اور توشہ راہ کے ساتھ آخرت کی طرف روانہ ہوگئے۔ انہوں نے دنیاوی حرام چیزوں کے ترک کرنے کی لذت چکھی اور یقین رکھتے تھے کہ قیامت کے دن خدا کے جوار میں ہوں گے۔ ایسے مقام پر ہوں گے کہ جو بھی چاہیں گے انھیں دیا جائے گا اور ہر قسم کی لذت سے مالامال ہوں گے۔
اگر انسان دنیا میں رہ کر خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا صحیح استعمال کرے تو بظاہر دنیا کا کام ہے لیکن وہی دنیاوی کام اُخروی کام ہے؛ کیونکہ اگر اپنے ہر کام میں خدائی رنگ پھر دے اور فی سبیل اللہ کا قصد کرلے تو دنیا میں رہ کر آخرت کا تاجر بن سکتا ہے۔ اگر کوئی حلال طریقہ سے زیادہ سے زیادہ دولت کمائے کہ اس سے بندگان خدا کی ضرورت پوری کرے گا تو یہ اضافی مال و دولت مذموم نہیں بلکہ ممدوح اور پسندیدہ ہے۔ اسی طرح علم حاصل کرے کہ اپنی جہالت دور کرنے کے ساتھ ساتھ بندگان خدا کو صحیح اور غلط راہ کی نشان دہیکروں گا تو یہ اُخروی کام ہے اسی طرح مجمع عام میں وعظ و نصیحت کرے کہ اس بات سے زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھائیں تو یہ ریاکاری سے دور بھی ہے اور زیادہ ثواب کی حامل بھی؛ کیونکہ اس سے مقصد آخرت ہے۔
خلاصہ خدا کی نعمتوں کا صحیح استعمال انسان کو اچھی آخرت کا مالک بناتا ہے اور دنیا میں بھی سربلند و سرخرو بناتا ہے۔ خدا ہم سب کو توفیق دے کہ ہم خدا کے لئے کام کریں اور اپنی آخرت سنواریں۔آمین۔