اے میرے بیٹے! آج جب میں تم سے گفتگو کررہا ہوں تو تم جوان ہو۔ جان لو کہ جوانوں کے لئے توبہ کرنا بہت آسان ہے کیونکہ نعمت جوانی سے سرشار افراد اپنے نفس کی اصلاح اور اپنے باطن کا تزکیہ کرنے اور اسے پاکیزہ بنانے میں سرعت کے ساتھ عمل کرسکتے ہیں۔ جوانوں کے مقابلے میں بوڑھوں کے اندر نفسانی خواہشات، جاہ طلب، دولت پرستی، مقام دوستی، عیاشی اور کبر و نخوت کی بیماری بہت زیادہ ہوتی ہے، لیکن جوانوں کی روح لطیف اور پاکیزہ ہوتی ہے، ان کا صفحہ دل نسبتا زیادہ پاک و صاف ہوتا ہے، ان کے اندر حب نفس اور دنیا پرستی کا جذبہ کم ہوتا ہے اور جوان نسل نسبتا آسانی کے ساتھ اپنے آپ کو نفس امارہ کے ہلاکت بارش سے بچا سکتی اور روحانیت کی طرف زیادہ مائل ہوسکتی ہے۔
وعظ و نصحیت اور درس اخلاق کا اثر ان پر زیادہ ہوتا ہے، لہذا جوانوں کو محتاط اور چوکنا رہنا چاہیئے اور نفسانی اور شیطانی وسوسوں کے فریب سے دور رہیں کیونکہ کوئی جوان یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ ہم بوڑھاپے تک زندہ رہیں گے اور صحیح و سالم رہ کر خدا کی عبادت کریں گے اور اس کے تقرب کا ذریعہ فراہم کریں گے۔
میرے بیٹے! وقت برباد نہ کرو بلکہ جوانی میں اپنی اصلاح کرو۔ اپنے گذشتہ گناہوں کی معافی اور تلافی کرو، کسی کو نہیں معلوم کہ کب موت آجائے اور توبہ کی بھی مہلت نہ ملے، شیطان کی چالوں سے محتاط رہو، اسے اپنے آپ سے مسلط نہ ہونے دو، کیونکہ دنیا عمل کی جگہ ہے اور آخرت جزا کی، عمل خالص خدا کے لئے ہو۔ مرنے کے بعد کسی کا کوئی بس نہیں چلے گا۔ ہر شخص اپنے کئے پر نادم، شرمندہ ہوگا اور کف افسوس ملے گا اور حسرت کرے گا۔
لہذا یوم الحسرة سے پہلے خود کو اس دن کے لئے آمادہ کرلو اور ابدی شرمندگی سے بچالو۔ ہر انسان خدا کی مخلوق اور اس کا بندہ ہے لہذا اپنی اس بندگی کو ہمیشہ یاد رکھے اور یہ ذہن میں رہے کہ وه کس کا بندہ ہے اور میرے ملک اور آقا نے ہمیں کیوں خلق فرمایا ہے اور دنیا میں زیور وجود سے نواز کر اتنا ساری نعمتیں کس لئے دی ہیں؟ کسی بھی محسن کے احسان کے بدلہ میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔ یہی نہ کہ ہم اس کے احسان کو یاد رکھیں، اس کے خلاف کوئی کام نہ کرے، اس کی مرضی پر چلیں، اس کی نفرت اور ناپسندیدگی کا سبب نہ بنیں، اور ہر وقت اس کی مرضی اور خوشنودی کا خیال رکھیں ورنہ ہم نے محسن کا حق ادا نہیں کیا۔
خداوند عالم اپنے بندوں کے ساتھ تمام چیزوں کے عطا کرنے کے علاوہ ہمه وقت احسان کرتا رہتا ہے۔ لہذا اس کا جتنا اور جہاں تک ممکن ہو حق ادا کریں اس کے لئے ہمیں اس کے بتائے ہوئے راستوں اور اس کے ارشادات اور فرامین پر عمل کرنا ہوگا، اور اپنے عمل کو سنانے، دکھانے اور خود پسندی جیسے ناپسندیدہ اور مبغوض الہی اعمال سے دوری اختیار کرنی ہوگی نیز صرف اور صرف خداوند وحده لا شریک لہ کے لئے عباردت کرنی ہوگی ورنہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک کیا اور عمل میں ریاکاری آگئی تو وہ شرک ہے اور انسان جو کام لوگوں کو دکھانے، سنانے اور ان کی تعریف کرانے کے لئے کرتا ہے اس کا ثواب بھی لوگوں کے ذمہ ہوگا اور جو کام خدا کے لئے کیا جاتا ہے اس کا اجر و ثواب خدا دیتا هے۔
شرک یعنی اچھے اور پسندیدہ اعمال کو لوگوں کو دکھانے، سنانے اور لوگوں کے درمیان اپنی عزت و احترام بڑھانے کے لئے کرنا ہے اور اچھائی ، دینداری اور دیانت داری کا دکھاوا کرکے لوگوں کے دلوں میں مقام و مرتبہ بنانا ہے۔ ایسا کرنے والا مشرک کہلاتا ہے اور شرک کو قرآن عظیم میں ظلم کہا گیا ہے۔
لہذا میرے بیٹے اور عزیز بھائیوں! خدا کے لئے عمل کرو اور ہر کام کا سرچشمہ خدا ہو ورنہ دنیا کی ساری تگ و دو بے سود ہوگی اور وہاں کوئی کام نہیں آئے گا۔ خدا ہم سب کو خلوص نیت کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔