دحو الارض

دحو الارض؛ آسمان سے نازل ہونے والی پہلی رحمت

زمین انسان اور تمام زندہ موجود کی زندگی گذارنے کا گہوارہ ہے

25/ ذی قعدہ الحرام، دحو الارض یعنی زمین بچھائے جانے کا دن ہے۔ اس دن کی شب میں بھی آٹھویں امام حضرت علی بن موسی الرضا (ع) کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہما السلام پیدا ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہ دن حضرت امام زمانہ (عج) کے قیام کا دن بھی بتایا گیا ہے۔

"دَحو" پھیلانے اور توسیع کرنے کے معنی میں ہے اور بعض نے اسے کسی چیز کو اس کے اصلی مرکز سے ہلانے اور ہٹانے کے معنی میں تفسیر کی ہے۔ "دحو الارض"(زمین کا بچھایا جانا) سے مراد یہ ہے کہ آغاز میں زمین کی تمام سطح پر پہلے سیلاب کی بارشوں سے جمع شدہ پانی  تھا۔ یہ پانی تدریجا زمین کے گڑھوں میں چلا گیا اور پانی کے نیچے سے خشکی ظاہر ہوئی اور روز بروز  اس میں وسعت آتی گئی اور بڑھتی گئی۔  دوسری طرف زمین ابتدا میں غیر مسطح اور ناہموار، ٹیلوں اور ناقابل سکونت، نشیب و فراز کی شکل میں تھی۔ بعد مین جب مسلسل سیلابی بارش ہوئی تو زمین کی بلندیاں کم ہوئیں اور درّے بڑھ گئے۔ پھر دھیرے دھیرے زمین ہموار ہوتی گئی اور انسانوں کی زندگی اور کھیتی باڑی کے قابل ہوگئی۔ اسی بچھاجانے اور پھیلانے کو "دحو الارض" کہا جاتا ہے۔

زمین انسان اور تمام زندہ موجود کی زندگی گذارنے کا گہوارہ ہے اور تمام پہاڑ، دریا، درّے، جنگلات، چشمے، ندیاں، نالے اور اس کے گراں قیمت معادن اور کانیں، خالق یکتا کی خلقت کی نشانی ہیں۔

آیت اللہ ملکی تبریزی نے اپنے کتاب "المراقبات" میں لکھا ہے کہ ماہ ذی القعدة میں سب سے اہم کام، خداوند عالم کی ان نعمتوں سے آگاہی اور جانکاری ہے جو اس نے "دحو الارض" کے دن انسانوں کو عطا کی ہیں؛ کیونکہ نعمتوں اور اس کی کیفیت و مقدار سے آگاہی اس کے شکر کا پہلا مرتبہ ہے۔ اور اس دن انسان کے لئے خدا کی ایک عظیم نعمت یہ ہی کہ خدا نے کعبہ کو اپنا گھر قرار دیا ہے اور لوگوں کو اس کی زیارت کرنے کی اجازت دی ہے اور انسانوں کے اس عمل کی جزا رکھی ہے، خدا راضی ہوتا ہے اور ان کے عمل کو قبول کرتا ہے اور یہ خدا کا غایت درجہ لطف و کرم اور اس کی مہربانی ہے۔

جہاں دحو الارض کا دن اتنا مبارک اور مسعود ہے اس کے لئے اس دن کے مخصوص آداب اور اعمال بھی ذکر ہوئے ہیں:

"دحو الارض" کا دن سال کے ان چار دنوں میں سے ایک دن ہے جس میں روزہ رکھنے کی فضیلت سب دنوں سے زیادہ اور نمایاں خصوصیت کی حامل ہے۔ ایک روایت میں ذکر ہوا ہے کہ اس دن کے روزہ کا ثواب 70/ سال کے روزہ کے برابر ہے اور ایک روایت میں ہے 70/ سال کا کفارہ ہے۔ جو شخص بھی اس دن روزہ رکھے اور اس کی شب میں عبادت کرے اس کے لئے 100/ سال کی عبادت کو نازل ہوئی ہے لہذا جو کوئی اس دن روزہ رکھے اور اس کی شب میں عبادت کرے اس کے لئے 100 / سال کی عبادت لکھی جائے گی۔

حضرت علی (ع) سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آسمان سے نازل ہونے والی سب سے پہلی رحمت 25/ ذی القعدة کو نازل ہوئی ہے لہذا جو کوئی اس دن روزہ رکھے اور شب میں عبادت کرے اسے 100/ سال کی عبادت کا ثواب عطا کیا جائے گا۔

اسی طرح باقی دعائیں اور نماز، مفاتیح الجنان سے پڑھے کیونکہ اس دن کے لئے بہت ساری دعائیں ذکر ہوئیں ہیں اور آداب بتائے گئے ہیں۔

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:

"دحو الارض" ایام اللہ میں سے ہے لہذا ہم انسانوں اور مسلمانوں کو اس کی اہمیت جاننی چاہیئے، ہمیں اس دن کی قدر کرنی چاہیئے۔ یہ بہت ہی مبارک اور بافضیلت دن ہے اس دن کی فضیلت کے بارے میں رسولخدا (ص) سے لیکر تمام انبیاء اور ائمہ معصومین (ع) سے روایات ذکر ہوئی ہیں۔ اس دن کے آداب و اعمال ہیں اور روایت کے مطابق ہیمں اس دن کے فیض سے بے بہرہ نہیں رہنا چاہیئے۔ جہاں تک ہوسکے اس دن اور رات کی فضیلتوں کا ادراک کریں اور اس سے فیضیاب ہونے کی کوشش کریں۔

ای میل کریں