21/ تیر ماہ مطابق 12 جولائی کے دن بے حجابی کے خلاف مشہد کے عوام کے قیام کا دن ہے اور اس دن کو ایران میں "روز حجاب و عفاف" کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ جس دن رضا خان کے چچوں اور کاسہ لیسوں نے بے حجابی پر اعتراض کرنے والے عوام کو گوہر شاد مسجد میں خاک و خون میں غلطان کردیا۔
بے حجابی کی سازشیں
عصر حاضر کی تاریخ میں اسلام دشمن عناصر کی ایک سازش بے پردہ کرنے کی سازش ہے۔ رضا خان 3/ اسفند سن 1299 ھ ش کی بغاوت کرکے انگریزوں کی حمایت اور رہنمائی سے بر سر اقتدار آیا اور معاشرہ کو اسلام سے دور کرنے اور اس کی جگہ لیبرلیزم کو لانے کی فکر میں پڑگیا۔ اس نقشہ اور تجویز کا سب سے اہم جلوہ بے پردہ کرنے کی پالیسی تھی۔ بے حجابی کی راہ ہموار کرنے کے لئے پارلیمنٹ 6/ دی ماہ سن 1307 ھ ش حکومت نے مرد اور عورت سب کا ایک طرح کا لباس کرنے کا قانون پاس کیا۔ اس بنیاد پر مردوں کے لئے کوٹ، پینٹ، ٹائی اور انگریزی ٹوپی پہنا لازمی ہوگیا۔
رضا خان کی کوشش باعث ہوئی کہ کچھ مغرب نواز بالخصوص درباری اور حکام کی عورتیں بے پردہ یا بد حجابی کے ساتھ عام مجمع اور عمومی گذرگاہوں پر ظاہر ہوں اور لوگوں نے بھی رضا خانی ظلم و ستم اور اضطراب و گھٹن کے سامنے اپنی حساسیت کا اظہار نہیں کیا۔ سن 1313 ش کو رضا خان ترکیہ جاتا ہے اور مصطفی کمال آتا تورک کی قیادت میں ترکیہ کی لائیک حکومت نے مسلم معاشرہ کو مغربی معاشرہ بنانے میں جو تبدیلیاں ایجاد کی تھیں۔ انھیں دیکھنے کے بعد، ماضی سے کہیں زیادہ متاثر ہوا اور اس نے اسلام کی نابودی بالخصوص عورتوں کو بے پردہ کرنے کے لئے قدم اٹھایا۔ بهمن 1313 ش کو تہران یونیورسٹی کے افتتاح کے موقع پر لڑکیوں کو حکم دیا بے پردہ ہوکر علم حاصل کریں۔
تمدن کا بہانہ
رضا شاہ 11/ آذر 1314 ش کومحمود جم سے کہا کہ ان چادروں اور نقابوں کو کس طرح ہٹایا جاسکتا ہے؟ تقریبا دو سال یہ موضوع مجھے اذیت کررہا ہے۔ بالخصوص جب سے ترکی گیا ہوں اور وہاں کی عورتوں کو دیکھا ہے۔ اس کے بعد پردہ دار خواتین سے نفرت ہونے لگی ہے۔ یہ چادر و غیرہ ترقی اور پیشرفت کی دشمن ہے۔
وزیر نے کہا: اگر ہمایونی اعلی حضرت آگے بڑھیں تو سارے لوگ پیروی کریں گے؛ پرانے زمانہ میں لوگ کہتے تھے: الناس علی دین ملوکہم؛ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین کے پابند ہوتے ہیں۔ شاہ نے اس کی باتیں سن کر کچھ دیر سوچا اور کہا کہ دوسرے لوگ تو اقدام نہیں کریں گے میں بوڑھا خود ہی آگے بڑھتا ہوں اور لوگوں کے لئے نمونہ بنوں۔ ان باتوں سے لگتا ہے کہ یہ منصوبہ پہلے سے بن چکا تھا۔
رضا شاہ نے اسلام مخالف اپنے پروگرام کو اجرا کرنے کا حکم دیا۔ عوام اور علماء نے جب اس بے شرمانہ حکم سنا اور انداز دیکھا تھا غم و غصہ سے بھرگئے اور آیت اللہ قمی نے کچھ علماء اور سربرآوردہ لوگوں سے مشورہ کرکے بے پردگی کو روکنے اور کلاہ شاپو استفاده کرنے کی پابندی ہٹوانے کے لئے 9/ تیر 1314 ش کو تہران کا سفر کیا۔
شہرری میں ان کی قیام گاہ کو حکومت نے محاصرہ کرلیا۔ جس سے مشہد کے لوگوں کا غصہ بھڑکا تھا اور مسجد گوہر شاد میں 21/ تیر ماه کو بے رحمی کے ساتھ قتل و کشتار ہوئی۔ آیت اللہ قمی اس کشتار کے بعد عتبات عالیہ جلاوطن کردیئے گئے اور حکومتی مامورین آپ کے دوستوں کو منجلمہ محمد تقی بہلول کو گرفتار کرنے کی فکر میں ہوگئے۔
بے پردگی کے دور میں بہت ساری عورتیں گھروں سے باہر نکلنا نہیں چاہتی تھیں لہذا وہ گھروں ہی میں رہیں اور کچھ عورت رات کو رفت و آمد کرتی تھیں اور بعض گھروں میں مجبورا حمام بناتے گئے اور جن لوگوں کے پاس زیادہ اسباب و وسائل تھے انہوں نے یہاں سے فرار کرنے کو ترجیح دیا اور اپنا وطن چھوڑدیا۔ خلاصہ اس دین و انسانیت کے دشمن نے اپنے انگریز آقاؤں کے اشارہ پر دین کی بنیادوں کو کھو کھلا کرنے کی بھرپور کوشش کی اور رسوا ہوا۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
خدا جانتا ہے کہ ان لوگوں نے بے پردہ کرنے میں کونسا کون سے جرائم کئے ہیں یہاں تک کہ اس ناپاک اور بدسرشت انسان نے علماء سے کہا کہ آپ لوگ اپنی خواتین کے ساتھ مجلس کریں اور اپنی عورتوں کے ساتھ مجلس میں آئیں...... خدا جانتا ہے کہ ایران کی اس قوم کے ساتھ کیا گذرا ہے۔ ان لوگوں نے بے حجاب کرنے کے جبری قانون سے انسانیت کو ٹکڑے ٹکڑے کررہاہے۔ ان لوگوں نے عورت کی آزادی کو نیچے گرادیا ہے۔ یعنی عورت کو اس کی انسانی مرتبہ سے نیچے گرادیا ہے، اس کے ساتھ ایک وسیلہ کے عنوان سے رفتار کی ہے یعنی ان لوگوں نے ایرانی عورتوں سے جیلوں کو بھر دیا ہے جو شاہی پستی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان لوگوں نے اسلام کی تجلیوں کا ساتھ دشمنی کی اور اسلام کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ لیکن اسلام خدا کا پسندیدہ دین ہے خدا اسے ہر حال میں دشمنوں کی شیطنت اور ان کی باطل سازشوں سے محفوظ رکھے گا ۔