اسرائیلی فوج

ایرانی حملے کے خوف سے کئی راتیں جاگ کر گزاریں

صیہونی حکومت کے سابق سکیورٹی سیکرٹری کا اعتراف

اسلام ٹائمز۔ قابض صیہونی حکومت کے اعلٰی عہدے پر فائز ایک اہم شخص نے اسرائیلی اخبار ھاآرتص سے گفتگو کے دوران اعتراف کیا ہے صیہونی حکومت ایران کی جانب سے فوجی حملے سے بہت زیادہ پریشان ہے اور خوف میں مبتلا ہے۔ اسرائیلی نیشنل سکیورٹی کونسل کے سابق سیکرٹری اور وزارت خارجہ کے اہم عہدہ دار ارن اتزین نے اخباری نمائندے سے گفتگو میں کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں سب سے زیادہ حساس علاقہ شام ہے۔ اس ملک میں ہم آج بھی چھوٹی سطح کی جنگ میں ہیں۔ یہ صورتحال کسی بھی وقت ہمارے لئے خراب ہو سکتی ہے چونکہ اس جنگ میں اور ہمارے درمیان صرف ایک فاصلہ ہے اور وہ روس ہے۔ نیتن یاہو ہمیشہ ہی کہتا ہے کہ ہمارا اصلی ہدف ایران کو شام سے نکالنا ہے، ہمارے باقی سیاسی لیڈر بھی اسی بات کو ہی تکرار کرتے ہیں جبکہ یہ ایسا ہدف ہے جس کا حصول ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اور اس پر زیادہ اصرار کرنا جنگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ارن اتزن نے کہا کہ یاد رہے موجودہ شرائط بالکل بھی ہمارے حق میں نہیں ہیں اور ایرانیوں کی مداخلت کی وجہ سے خطے کی صورتحال بہت غیر یقینی ہے۔ تمام ملیشیا فورسز ایران کی حامی ہیں، اسی طرح حزب اللہ اور ترکی بھی۔ اور اس سارے منظر میں صرف ایک چیز یقینی ہے وہ یہ کہ امریکہ اپنی فورسز کو شام سے نکال رہا ہے۔

 اسرائیل کی قومی سکیورٹی کونسل کے سابق عہدہ دار نے مزید کہا ہے کہ اگر حزب اللہ اس جنگ میں شریک ہوئی تو تل ابیب سمیت اسرائیل کے مختلف شہروں میں تباہی اس حد تک زیادہ ہوگی کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جبکہ ایسی تباہی اس پہلے اسرائیل میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہمارے پاس اسکو روکنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس جواب کا صرف ایک ہی راستہ ہو گا لیکن مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ اگر بیروت کو تل ابیب کی تباہی کے مقابلے میں تباہ بھی کر دیں تو یہ کسی کے لئے اطمینان کا باعث ہو گا یا نہیں؟ اس اعلٰی سکیورٹی عہدہ دار کا کہنا تھا کہ جب حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ ایسی چیز ہے کہ اس جیسی چیز ہم نے ابھی تک نہیں دیکھی تو ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ حتما ایسی چیز ہے کہ جس کے بارے میں میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اتزین کا کہنا تھا کہ اب تک ہماری شعوری کوشش رہی ہے کہ ایران کے ساتھ ڈائریکٹ جھڑپ نہ ہو اور بہترین راستہ بھی یہی ہے کہ ہمیں اس بارے میں زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔

 اسرائیلی عہدہ دار نے فاش کیا کہ 2009ء اور 2013ء میں جب ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے تو میں نے اپنی ذمہ داری کی مناسبت سے اس بارے میں کافی کام کیا۔ جب میں سکیورٹی کونسل میں تھا اس وقت بھی اور جب میں وزارت خارجہ میں تھا اس وقت بھی۔ ایسی چیزیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ جنکے بارے میں بات بھی نہیں کی جاسکتی لیکن اگر میری بیوی یہاں ہوتی تو آپ کو بتاتی کہ میں نے کتنی راتیں جاگ کر گذاریں ہیں، اس وجہ سے نہیں کے دفتر میں کام کرتا رہا ہوں بلکہ اس پریشانی کے سبب جو لاحق تھی۔ اسرائیلی عہدہ دار نے ایران کے ایٹمی مسئلہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو دعوی کیا جاتا ہے کہ ایران ایٹم بمب بنانا چاہتا ہے تاکہ اس سے تل ابیب پر حملہ کردے یہ صرف ایک دعوی اور سیاسی نعرہ ہے۔

ای میل کریں