اسلامی مآخذ اور کتابوں میں یعنی قرآن اور ائمہ معصومین (ع) کی روایات اور فقہی کتابوں میں حق الناس کی بہت زیادہ اہمیت اورر اس کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں حقوق الناس کی رعایت کی تاکید کی گئی ہے خواہ اقتصادی مسائل ہوں یا سماجی ، حقوقی و غیرہ کی بات ہو، لوگوں کو حقوق الناس کے احترام کی دعوت دی گئی ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
"اے صاحبان ایمان! تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے اموال کو ناجائز، غلط اور باطل طریقہ سے نا کھاؤ" (نساء، آیت /29)
یعنی کسی دوسرے کے مال میں عقلی اور منطقی جواز اور حق کے بغیر ہر قسم کے تصرف سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم قوم یہود کی مذمت اور ان کے برے اعمال کو ذکر کرتے وقت فرماتا ہے:
"وہ لوگ، لوگوں کے اموال میں ناحق اور بغیر جواز کے تصرف کرتے تھے۔"
بنابریں کسی قسم کی زیادتی، ہیرا پھیری، دھوکہ دھڑی، سوری معاملات، رشوت خوری اور ایسی اجناس کی خرید و فروخت میں عقلی اور منطقی کوئی فائدہ نہ ہو، فساد، تباہی اور گناہ کے اسباب کی خرید و فروخت اس کلی قانون کے ماتحت آتے ہیں اور واضح ہے کہ اکل اور کھانے سے مراد اس آیت میں ہر قسم کے تصرف سے کنایہ ہے۔ خواہ معمولی کھانے یا پہننے یا سکونت اختیار کرنے و غیرہ کی صورت میں ہو۔ ہاں! اگر دوسروں کے اموال میں آپ کا تصرف معاملہ کے ذریعہ ہو جس کا سرچشمہ طرفین کی قلبی رضایت اور ان کی خوشی سے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
حق الناس روایات کی روشنی میں
روائی کتابوں میں حق الناس کی جانب بہت توجہ دی گئی ہے وہ بھی اس درجہ کے اگر اس باب کی ساری روایت کو جمع بندی کی جائے تو کئی جلد کتاب بن جائے گی۔ یہاں پر روایات کے کچھ نمونے پیش کئے جارہے ہیں۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: "جو ظلم قابل بخشش نہیں ہے وہ ظلم ہے کہ خدا کے بعض بندہ دوسرے بندوں پر کرتے ہیں۔ "(نہج البلاغہ، خطبہ 175)
امام صادق (ع) نے فرمایا: "پل صراط میں ایک دشوار اور پر پیچ گھائی ہے کہ اس سے وہ شخص عبور نہیں کرسکتا جس کے ذمہ حق الناس ہوگا۔"
حضرت علی (ع) سے منقول ہے کہ خداوند عالم قیامت کے دن فرمائے گا: "آج کے دن میں تمہارے درمیان عدالت کی ساتھ حکم کروں گا اور میری عدالت میں کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ آج کمزور کا قوی سے حق واپس لے لوں گا۔ آج مظلوم کے حق میں ظالم سے انصاف کروں گا (یا پھر ظالم کے نیک اعمال کو لیکر مظلوم کے نامہ اعمال میں ڈال دوں گا یا پھر مظلوم کے گناہ کو اٹھا کر ظالم کے نامہ اعمال میں ڈال دوں گا) آج کے دن صرف ظالموں کا وہی گروہ نجات پائے گا جسے مظلوم معاف کردے گا۔
منقول ہے کہ پیغمبر (ص) نے اپنے اصحاب سے سوال کیا: "کیا تم لوگ جانتے ہو کہ میری امت کے مفلس اور وفادار کون لوگ ہیں؟" ان لوگوں نے جواب دیا: یا رسول اللہ! ہمارے درمیان مفلس اور نادار تو وہی ہے جس کے پاس مال و دولت نہ ہو" حضرت (ص) نے فرمایا: " میری امت کے نادار وہ لوگ ہیں جو نماز، روزہ اور زکات کے ساتھ محشر میں آئیں گے لیکن دنیا میں حق الناس ادا نہ کرنے کی وجہ سے ان کا کام مشکل بنا ہواہے۔ ان لوگوں نے کسی کو برا بھلا کہا ہے تو کسی پر ناروا تہمت لگائی ہے یا کسی کا ناحق مال کھایا ہے لہذا ان ظلم اور زیادتی کی بنا پر سوال کیا جائے گا اور ان کی نیکیاں اٹھا کر مظلومین کے نامہ اعمال میں لکھ دیئے جائیں گے۔ اس کے بعد وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ایسے ہی لوگ قیامت کے دن مفلس اور نادار ہوں گے۔ (محجة البیضاء، ج 8، ص 323؛ حق الناس، محمد اکبری، ص 20)
مرحوم فیض، رد مظالم کے باب میں کہتے ہیں:
لوگ قیامت کے دن نیران کے خطرہ سے نجات نہیں پائیں گے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے دنیا میں اپنا حساب و کتاب پاک و صاف کرلیا ہوگا۔ کیونکہ وہاں پر سارے مطالبہ کرنے والے انسان کو گھیرے ہوں گے اور ہر ایک کسی نہ کسی طرح سے اپنے حق کا مطالبہ کرے گا۔ کوئی کہے گا: تو نے میری غیبت کی ہے، دوسرا کہے گا: تم نے مجھ پر تہمت لگائی ہے اور تو نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
کیا اللہ تعالیٰ یونہی توبہ قبول کرتا ہے؟ جب تک لوگوں کے حقوق ادا نہ ہوں خدا توبہ قبول نہیں فرماتا۔ کیا آپ حق الناس کی ادائیگی پر قادر ہیں ؟ کیا آپ کسی شخص کو دس سال تک حبس میں رکھنے اور اس کی جوانی برباد کرنے کے بعد اس کی تلافی کرنے پر قادر ہیں تاکہ اس کے بعد توبہ کریں ؟ اس کے بغیر توبہ کی کیا حیثیت ہے؟ آپ یونہی توبہ نہیں کر سکتے ۔ اللہ کے یہاں آپ کی یہ توبہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ حق الناس کا مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی خاطر لوگوں کے حق کو نہیں بخشتا۔( صحیفہ امام ، ۴، ص۴۸۷)
فقہ کے تمام ابواب میں حق الناس کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اور مسائل موجود ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابواب فقہ میں کوئی ایسا باب نہیں ملے گا جس میں حق الناس کے بارے میں گفتگو نہ ہوئی ہو۔ ہم یہاں پر اس کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے مدعا کو ثابت کریں گے:
1۔ نماز کے باب میں نمازگذار کا لباس اور مکان غصبی نہ ہو۔2۔ حج میں احرام کا لباس غصبی نہ ہو۔ 3۔ وصیت میں وصیت کرنے والے اور جس کے لئے وصیت کی گئی ہے کا حق ضائع نہ ہو۔ 4۔ میراث کے باب میں ورثہ اور میت کے حقوق ضائع نہ ہو۔
قرآن کی آیتوں میں سب سے زیادہ طولانی آیت حق الناس کے بارے میں ہے۔ حق الناس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ حق چھوٹا ہو یا بڑا اور اس میں کزور اور قوی کا مسئلہ نہیں ہے۔ حق الناس میں عورت اور مرد، چھوٹے اور بڑے، کمزور اور مضبوط کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ممکن ہی کہ انسان تین قسم کا ظلم کرے۔ خدا کے حق میں ظلم، اپنے آپ پر ظلم اور دوسروں پر ظلم۔ ممکن ہے خدا پہلی دوقسم کے ظلم کو معاف کردے لیکن دوسروں کے حق میں ظلم کو معاف نہ کرے مگر یہ کہ صاحبان حقوق اس سے راضی ہوجائیں یعنی معاف کردیں۔
لہذا حق الناس کی اہمیت کے پیش نظر ہر شخص کے لئے اپنے اور دسورں کے قرضوں کے لئے دفتر بنانا ضروری ہے۔ ہر شخص اپنی فکر کے مطابق اپنے گزشتہ مظالم کو رد کرنے اور دوسروں کے حق کو ضائع کرنے کے لئے رد مظالم کے عنوان سے رقم خرچ کرے اور اگر خود نہیں دے سکتا تو وصیت کرے تا کہ اس کی طرف سے بعد میں دوسرے لوگ رد مظالم کا فریضہ ادا کریں یا پھر اس سے حلالیت طلب کرلیں۔
اسلام نے طہارت اور نجاست کو آسان لیا ہے لیکن لوگ اسے اپنے اوپر سخت لیتے ہیں، لیکن حق الناس لوگوں کا مال، آبرو اور جان ہے اور اس کی بہت اہمیت ہی لیکن لوگ اسے اسان سمجھتے ہیں اور مذاق جانتے ہیں۔
حق الناس کے مختلف اصول اور بنیادیں ہیں کہ ہم یہاں پر اس کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں:
1۔ فطری حقوق کے ہر انسان فطری طور پر ان حقوق کا مالک ہو جیسے زندگی کا حق، امن و امان اور سالمیت کا حق، آزادی اور کام کاج سے حاصل ہونے والے حقوق۔
2۔ بنائے ہوئے حقوق کہ ہر ملک اور معاشرہ میں اپنی ثقافت اور تمدن اور ضرورتوں کے مطابق افراد اور معاشرہ کے لئے حقوق قرار دیا ہے۔ جیسے شہری حقوق، جزائی، اداری حقوق و غیرہ۔ حضرت (ع) نے فرمایا:پھر خداوند عالم نے اپنے حقوق سے انسانوں کے لئے ایک دوسرے کی نسبت حقوق قرار دیتے ہیں۔
3۔ بعض حقوق اصل دینی ہے جیسے خمس، زکات، کفارات و غیرہ کہ خداوند عالم نے ضرورتمندوں کے لئے حقوق قرار دیئے ہیں۔
آیات، روایات اور فقہ اسلامی میں حقوق الناس اور حقوق اللہ کے بارے میں اتنی زیادہ تاکیدوں اور ہدایات کے باوجود ہم اکثر حقوق سے غافل ہوتے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں دیتے جبکہ ساری ہی حقوق انسان کے لئے روز قیامت وبال ہوں گے اور مشکل سے دوچار کریں گے خصوصا حقوق الناس جس کی طرح ہماری ذرہ برابر توجہ نہیں ہوتی ہے یا پھر خدا اور رسول کی باتوں سے بے خبر ہو کر اپنے مظالم اور زیادتیوں کو جاری رکھتے ہیں اور اس کی سنگینی اور قیامت کے دردناک عذاب اور ہولناک مصیبت کو یاد ہی نہیں رکھتے اور بھائی، بھائی پر، بہن بھائی، بھائی بہن پر، اولاد والدین پر، ایک عزیز دوسرے عزیز پر، ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی پر، استاد شاگرد پر، شاگرد استاد پر، چھوٹا بڑے پر اور بڑا چھوٹے پر اور والدین اولاد پر ظلم کرتے ہیں اور اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے۔
خداوند عالم ہم سب کو حقوق الناس اور حقوق اللہ ادا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین۔