ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی اور محرک رہبر کبیر آیت اللہ العظمی روح اللہ خمینی (رح) فرماتے ہیں:
شیطان ہر انسان کو الگ الگ طریقوں اور حیلوں اور بہانوں سے دھوکہ دیتا ہے اور فریب میں ڈالتا ہے نیز اس کے ہر ضعف کو بہکانے اور دھوکہ دینے کے الگ الگ اسباب اور وسائل ہیں۔ بچوں کو کسی اور طریقہ سے، بوڑھوں کو کسی اور وسیلہ سے، مرد کو کسی اور طریقہ سے، عورت کو کسی اور طریقہ سے دھوکہ دیتا ہے؛ کیونکہ ہر انسان کی الگ الگ صنف کے دلچسپی کے سامان الگ ہیں اور اس کی کمزوریاں بھی الگ ہیں لہذا جس کی سب سے بڑی جو کمزوری ہوتی ہے، اسی راہ سے اسے دھوکہ دیتا اور راہ ہدایت سے گمراہ کرکے ضلالت اکے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈھکیل دیتا ہے۔ شیطان کا کام ہی انسانوں کو خصوصا خدا کے بندوں کو بہکانا اور خدا سے دور کرنا اور انسانیت کے راستہ سے ہٹانا اور حیوانیت، درندگی اور سفاکیت کی راہ میں لگانا ہے تا کہ خدا کا بندہ نہ رہ جائے اور خدا کی بندگی اور اس کی عبودیت چھوڑ کر شیطان کی غلامی اور اسیری اختیار کرلے اور خدا کے نیک، صالح اور پاک و پاکیزہ بندوں سے نفرت کرے۔ خدا کے بتائے ہوئے زندگی کے اصول سے منحرف ہوکر شیطان کی دلچسپی کے مطابق سرگرم عمل رہے۔ جب انسان بوڑھا ہوجاتا ہے تو سن و سال کے تقاضا کے تحت اس کی ہر چیز کمزور ہوجاتی ہے اور سوچنے، سمجھنے اور صحیح و غلط کی تمییز کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے لہذا وہ ہم بوڑھوں کو نا امیدی، مایوسی اور قنوطیت کے ہتھیار سے توبہ و انابت کرنے سے روکتا اور یاد الہی اور فرمان خداوندی پر عمل کرنے سے غافل بناتا اور دور کرتا ہے۔
یعنی سن رسیدہ اور بوڑھے انسانوں کے ذہن میں ڈالتا ہے کہ اب تم لوگ بوڑھے ہوگئے ہو، تمہاری اصلاح کا وقت نکل چکا ہے کیونکہ جوانی کے ایام بونے اور کاٹنے کے تھے، جوانی میں تم لوگ کچھ کر سکتے تھے اور اب تو نہ تمہارے اندر صحیح عمل کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی گذشتہ کی تلافی کرنے کی استعداد و لیاقت ہے، تمہارے اندر نفسانی خواہشات اور گناہوں کی جڑیں مضبوط ہوچکی ہیں اور تمہارے وجود میں پھیل چکی ہیں۔ انہوں نے تمہیں اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے اور اس کی بارگاہ کبریا میں جانے کے لائق نہیں چھوڑا ہے، پانی سے سے گذر چکا ہے اور اب تم پورے طور سے ڈوب ہوچکے ہو۔اب خدا خدا کرنے کا کیا فائدہ ؛ لہذا تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ اب تم دنیا کے باقی بچے ایام میں دنیا وی لذتوں اور مادی نعمتوں سے خوب خوب فائدہ اٹھا اور عیش و عشرت کی زندگی کرو۔
اسسی طرح شیطان جوانوں کے ساتھ بھی کھلواڑ کرتا اور نت نئے طریقوں سے انھیں بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے: تم لوگ ابھی جوا ن ہو، جوانی کے ایام کھیلنے کودنے، عیش و عشرت اور دنیا کے مزہ لوٹنے کے ہوتے ہیں۔ تم لوگ اللہ اللہ اور نماز و عبادت اور توبہ کے چکر میں کہاں پڑرہے ہو۔ ابھی بہت وقت ہے پوری عمر پڑی ہوئی ہے۔ ابھی اپنی خواہشات اور جوانی کی فطرت کے تقاضوں کو پورے کرو اور اپنے دلی جذبات کی تسکین کرو اور جب عمر کا آخری حصہ آئے گا، تو توبہ و انابت کرلینا کیونکہ خدا اپنے بندوں کے لئے آخری وقت تک توبہ کا دروازہ کھلا رکھتا ہے وہ رحمن و رحیم ہے ۔ اتنا ہی ندامت و پشیمانی اور توبہ و انبات کی کیفیت زیادہ اور بہتر ہوگی اور خدا سے راز و نیاز میں مزہ آئے گا اور انسان پر یہ کیفیت اتنا ہی زیادہ موثر ہوگی۔ انسان خدا کی جانب اتنا زیادہ توجہ کرے گا اور جب بوڑھا پا آئے گا تو اللہ کی عبادت، ریاضت، ذکر الہی ، دعا، ائمہ اطہر سے توسل، زیارت اور ان کی شفاعت سے توسل کرنے میں گذارنا اور دنیا سے سرخرو اور کامیاب چلے جانا۔ ابھی وقت ہے۔ اتنی جلدی موت آنے والی نہیں ہے ۔ بلاوجہ توبہ و استغفار کی فکر میں پڑے ہو۔ پیغمبر (ص) اور علی (ع)شفاعت کریں گے۔ موت کے وقت حضرت علی (ع) تمہارے پاس آئیں گے۔
اس طرح کی فضول باتوں اور غافل بنانے والی چیزوں اور آخرت برباد کرنے والے بھلاوے سے بہکاکر واصل جہنم بنادیتا ہے اور انسان کی عقل پر غفلت کا پردہ پڑا دیتا ہے اور اس وقت وہ اس خواب غفلت سے بیدار ہوتا ےہ جب اس کا وقت نکل چکا ہوتا ہے۔ لہذا ہر ذی شعور اور صاحب عقل اس خداداد نعمت عقل و خرد کا استعمال کرے اور شیطان کے وسوسے میں نہ آئے اور اپنی آخرت سنوارے۔