امام خمینی (رح) کا راستہ اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کا راستہ تھا
حجت الاسلام والمسلمین استاد محمدصادق الهی نے امام خمینی (رح ) کی برسی کے موقع کے پر اہنے ایک بیان میں کہا: خدا کے صالح بندے وہ ہیں کہ جو ایمان اور تقوی میں ایک واضح نمونہ ہیں ان کی خاصیت میں سے ایک یہ ہے کہ وہ خدا سے جڑے ہوئے ہیں ان کو کبھی سکون نہیں ملتا مگر اس وقت کہ جب وہ خدا سے مرتبط ہوں اور یہ خاصیت بھی ایسے حاصل نہیں ہوتی مگر اس وقت کہ جب انسان معصوم علیھم السلام کو واسطہ قرار دے ،خدا صالح بندوں کی خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ ائمہ کے راستے پر چلیں جیسا کہ امام خمینی (رہ) نے کیا ۔ میرے والد کا کہنا ہے کہ یہ ایسے انسان تھے کہ پورا دن سختی اور مشکلات میں گذارتے اور مصیبتیں برداشت کرتے لیکن جب رات ہوتی تو تنہائی میں خدا سے ارتباط کرتے اور خدا سے رازو نیاز کرتے ۔
انہوں نے کہا:جو چیز انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کا سبب بنی وہ ایمان اور اعتقاد کے ساتھ ساتھ شجاعت بھی ہے یہ صفت امام خمینی کے اندر واضح تھی اور یہ ایسی شجاعت تھی کہ جو شجاعت امیر المؤمنین اور امام حسین علیھما السلام سے حاصل شدہ تھی اور در حقیقت یہی کامیابی کا راز بھی ہے ۔یہ شجاعت جوانی میں خدا پر ایمان اور توکل سے حاصل ہوئی ،وہ بھی اس طرح کہ رضا خان کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ،اس چیز کی طرف توجہ رہے کہ حکومت پہلوی کے مقابلے میں اس طرح سے ٹھرنا کوئی معمولی کام نہیں ۔ ایسی حکومت کہ جو حقیقت میں نمائندہ تھی امریکا کی ، اور مرحوم امام خمینی(رح) کو ایسے بت کے سامنے ٹہرنا پڑا یہاں تک کہ لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے اور اپنی قیمتی جانیں فدا کیں ۔وہ طاقت کہ جس کی وجہ سے آپ نے پہلوی حکومت کا مقابلہ کیا وہ خدا پر ایمان تھا کہ جس نے آپ کو اپنے ہدف تک پہنچایا اور اس راستے میں آپ کی شخصیت ہر دن مضبوط ہوتی چلی گئی اور جو آپ کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے تھے وہ دن با دن کمزور ہوتے گئے اور بعض لوگوں نے نجف میں ان سے کہا تھا کہ نہیں معلوم آپ ان مقابلہ کر سکیں گے یا نہیں اور آپ کو کامیابی نصیب ہو گی یا نہیں ،تو آپ نے فرمایامجھے یقین ہے کہ میں نتیجہ پر پہنچوں گا ۔
حجت الاسلام والمسلمین استاد محمدصادق الهی نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوے کہا مرحوم آیت الله العظمی اراکی فرماتے تھے کہ :طہارت روح اور سلامتی ان کے اندر نظر آتی تھی یقیناً انہوں نے جو راستہ اپنایا تھا وہ اباعبداللہ علیہ السلام کا راستہ تھا امام جب نجف اشرف میں تو اس وقت حضرت آیت الله العظمی اراکی زیارات کے لیے نجف جاتے ہیں اور صحن امیر المؤمنین علیہ السلام میں ان سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ امام کے سامنے ان کی شخصیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں گفتگو کے دوران ہی امام (رہ) خداحافظی کر کے چلے جاتے ہیں اور دوسرے دن مرحوم آقای شھاب آیت الله العظمی اراکی کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کل امام کا اس طرح سے چلاجانا اس لیے تھا کہ وہ نہیں چاہتے تھے اس طرح سے اپنی تعریف سنیں اور وہ بھی آپ جیسی عظیم شخصیت سے اس لیے انہوں نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں ان کی طرف سے معذرت خواہی کروں ،اس طرح کے اور واقعات بھی ملتے ہیں کہ جن میں ان کا تواضع ہمیں نظر آتا ہے ۔