قرآن کریم خداوند سبحان کی ایک عظیم نعمت ہے جو خدا نے اپنے بندوں کو عنایت کی ہے اور امین وحی حضرت جبرئیل (ع) کے ذریعہ خلق خدا کے درمیان معروف امین خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) پر انسانوں کی ہدایت اور کمالات کے اعلی درجہ اور قرب خداوندی کا بلند مقام اور حق تک پہونچنے کے لئے نازل کیا ہے۔ خداوند عالم نے سورہ رحمان میں اسے سب سے پہلی نعمت شمار کی ہے اور نعمت بیان سے پہلے ذکر کیا ہے۔ وہ بھی اپنے پاکیزہ نام «رحمن» کے ذکر کے ساتھ کہ اس کا فیض عام ہو اور اسے سب فیضیاب ہو۔
یہ آسمانی کتاب قرآن کریم، تمام اصول و فروع دین کی جامع کتاب اور عالم بشریت کا بلند ترین جواب ہے۔ ایک تقریر ساز کتاب ہے ایک مکمل قانون ہے۔ قرآن شفابخش ایک نسخہ ہے۔ روشن رہنما اور ہویدا ایک دلیل ہے، دقیق میزان، قوی واعظ، آگاہ اور با بصیرت رہبر، ظلمت شگاف نور، قوی ناطق اور سخنور ہے۔ اور عالمین پر ایک رحمت اور حق کو باطل سے جدا کرنے والی کتاب ہے۔ نیز تاریخی، سیاسی، نظامی، تربیتی، فقہی، اخلاقی، اعتقادی، فطری، حفظان صحت کا خیال رکھنے والی، صنعتی، فلسفی، ادبی، ریاضی اور دیگر علوم اور موضوعات مشتمل ایک مجموعہ ہے۔
اسی طرح قرآن فضائل و مناقب، برتری پر مشتمل ہے جس کے ادنی اور نچلےمرتبہ تک بھی ہر عالم کی رسائی نہیں ہے۔ عام انسان کا طائر فکر تحیل اس کے کمال و معارف تک پرواز نهیں کرسکتا، انسان اس کے معانی کی گہرائیوں تک پہونچنے سے عاجز و بے بس ہے۔ اور وہ اس کے حقائق سے پردہ نہیں اٹھا سکتا اور اس کے باطن کا ادراک نہیں کرسکتا اور نہ خود کو اس کا معلم، بیان کرنے والا اور مفسر نہیں کہہ سکتا۔ جز اس کے کہ وہ یہ اعتراف کرے اس کے مطالب، مفاہیم اور معانی کو محمد و آل محمد کے کوئی بھی نهیں سمجھ سکتا۔
جیسا کہ حضرت امام محمد باقر (ع) سے روایت ہے کہ آپ نے قتادہ سے فرمایا:اے قتادہ! قرآن کو بس وہی سمجھتے ہیں جو اس کے مخاطب قرار پائے ہیں۔
اس روایت میں کلمہ حصر «انما» سے مکمل طور پر سمجھ میں آتا ہے دنیا کے سارے فلاسفہ، متکلمین، مفسرین، فقہاء، بزرگان، مجتہدین، مفکرین، محققین، نابغہ روزگار، روشن فکر زمانہ، تمام یونیورسٹیوں کے بڑے بڑے نامور اساتذہ سارے کے سارے اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور آل محمد (ص) کے محتاج ہیں۔ جس نے رسولخدا (ص) سے کہا کہ میرے لئے کتاب خدا کافی ہے اس نے بہت بڑی غلطی اور ناسمجھی کی ہے، کیونکہ کتاب خدا ایسی شیئ ہے کہ اسے سمجھنے کے لئے آل محمد (ص) کی رہنمائی درکار ہے۔
اسی وجہ سے خداوند عالم نے مقابلہ کرنے کا اعلان کراتے ہوئے فرمایا: اگر تم لوگ قرآن کی نسبت شکوک و شبہات میں ہو، تو اس کی جیسا ایک سورہ ہی لے آؤ، یا فرمایا: اگر جن و انس سب مل کر ایک دوسرے کی مدد کریں اور قرآن کی مثل پیش کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔
خوش قسمتی سے جس دن سے رسول اکرم (ص) پر قرآن نازل ہوا ہے اس دن سے میدان خطابت اور فصاحت و بلاغت کے ماہرین نظم و نشر میں بے مثال اور افواہ پھیلانے والے، عرب و عجم کے جنگجو افراد، یہودی، عیسائی، بت پرست، خدا مخالف نے میدان مقابلہ میں شرکت کی اور کام کرنے میں لگ گئے، لیکن جہاں حق کے مد مقابل آجائیں اور خدا کا مقابلہ کریں تو وہ ہے اس کا حافظ و نگہبان اور یہ آسمانی اور الہی کتاب ان کی فکر و فہم، عقل و خرد اور ادراک و شعور کے افق سے کہیں بلند و بالا ہے۔ ان لوگوں کا اپنی محاذ آرائی میں ترقی و پیشرفت کرنا تو دور بلکہ انہوں نے روز افزوں اپنی ذلت و رسوائی میں اضافہ کیا ہے اور ناکامی کا منہ دیکھا ہے اور اگر خاص کر اس سلسلہ میں کسی نے کوئی مطالعہ کیا ہے تو وہ جانتا ہے کہ قرآن کی عظمت نے بزرگوں اور دانشوروں کو اس پر مجبور کیا ہے کہ وہ قرآن کی عظمت، اس کی شان و شوکت، حقیقت اور جامعیت کا اعتراف کریں اور اس کے سامنے سر تعظیم خم کریں۔
کیونکہ گوسٹاو لوبون،جویث، لیون، شبلی اور دسیوں دیگر افراد نے قرآن کا تعارف کرانے کی کوشش کی لیکن ایک ایسے مقام پر پہونچے کہ یازجی عیسائی اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے: جب بھی تم اپنے ہم عصردانشوروں اور علماء پر علم و ادب اور انشاء پردازی میں تفوق اور برتری حاصل کرنا چاہو تو تمہیں قرآن اور نہج البلاغہ حفظ کرنا چاہیئے۔
قرآن کریم کے بارے میں عالم ربانی اور عظیم هستی امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
جو شخص قرآن کے معانی، مفاہیم اور مطالب میں غور و خوض، تدبر و تفکر کرتا ہے، اس کے دل پر اس کا اثر ہوتا ہے اور دھیرے دھیرے مقام یقین تک پہونچ جاتا ہے اور اگر توفیق الہی شامل حال ہوجائے تو اس مقام و مرتبہ سے بھی بالاتر مقام تک پہونچ جاتا ہے۔ پھر اس کی اعضاء و جوارح اور قوی آیات الہی کی آیت بن جاتے ہیں اور خطاب الہی کے لب و لہجہ کی کشش اسے خود سے بیخود بنادیتی ہے اور «اقرا» کی حقیقت کا اسی دنیا میں ادراک کرلے گا تا کہ متکلم سے بلا واسطہ کلام سنے جو ہمارے اور آپ کے وہم و گمان میں نہ آئے وہ ہوجائے۔