جماران میں حضرت امام (رح) کے کرایہ کے مکان پر رہنے کے بارے میں ایک واقعہ کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے۔ ایک ایسا موضوع ہے جو امام کی شرعی معیاروں اور احکام کی رعایت میں شدید پابندی کو بیان کررہا ہے بالخصوص لوگوں کے حقوق کے بارے میں اور ایک اچھے اور دیندار کرایہ دار کا مناسب نمونہ ہیں۔اس کے باوجودکہ مالک مکان امام (رح) کا مقلد اور عاشق تھا اور وہ اپنے گھر میں امام کے رہنے کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا افتخار جانتا تھا لیکن حضرت امام (رح) ایک عام کرایہ دار کی طرح گویا کہ مالک مکان اور کرایہ دار کی درمیان کسی قسم کا کوئی لگاؤ نہ ہو، مربوطہ احکام شرعی کے پابند تھے۔
امام کی بعض رسمی ملاقات میں فلم بنانے کے کافی اور بقدر ضرورت روشنی کے لئے تین جگہوں سے اس کمرہ کی چھت کو ۵ × ۵ کے انداز میں تراش دیا تھا اور وہاں سے روشنی ڈالنا چاہتے تھے لیکن جب امام (رح) متوجہ ہوئے تو آپ نے تند لہجہ اور غضبناک انداز میں پریشان ہوکر فرمایا: یہ کیا ہے؟ اور یہ کام کیوں کیا گیا؟ بتایا گیا کہ فلم برداری کے لئے روشنی کافی نہیں تھی اس لئے ایسا کیا گیا ہے۔ کچھ دیر بعد غور و خوض کرنے اور تلخ خاموشی کے بعد فرمایا: مالک مکان کی اجازت کے بغیر اس طرح کے تصرفات کیوں کررہے ہیں؟ ، آپ کے اس سخت رویہ سے کام آگے بڑھانے سے رک گیا اور اصل واقعہ رک گیا اور اس جگہ کو تعمیر کیا گیا۔
یہ بھی منقول ہے کہ ایک دن امام (رح) کی اہلیہ نے فرمایا: مجھے جہاں تک یاد ہے، امام ہر رات نماز شب کے لئے اٹھتے تھے اور یہ کوشش کرتے تھے کہ بچوں کے لئے کسی قسم کی مزاحمت نہ ہو۔ یہاں تک کہ ایک رات بھی ایسا نہ ہوا کہ امام خمینی (رح) کی نماز شب کی وجہ سے ہم لوگ بیدار ہوئے ہوں۔
امام خمینی (رح) کے داماد آقا محمود بروجردی فرماتے ہیں: جب امام (رح) آدھی رات کو نماز شب کے لئے اٹھتے تھے تو بلب روشن نہیں کرتے تھےبلکہ چھوٹے سے آٹومیٹک چراغ سے کام چلا لیتے تھے جو صرف آپ کے قدموں کے سامنے روشن کرتا تھا اور آہستہ آہستہ راستہ چلتے تھے تا کہ دوسرے لوگ نیند سے اٹھ نہ جائیں۔
امام (رح) لوگوں کو حقوق الناس کے بارے میں تاکید کرتے تھے۔ میرے بیٹے! کوشش کرو کہ اس دنیا سے حق الناس کے ساتھ رخت سفر نہ باندھنا ورنہ کام بہت مشکل ہوجائے گا۔ انسان کا ارحم الراحمین خدا سے سروکار بہت ہی آسان اور سہل ہے۔ لیکن انسانوں سے انسانوں کا معاملہ اور سروکار بہت مشکل ہے اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ خود اپنی، تمہاری اور مومنین کے لئے۔
لیکن افسوس کہ ہم انسان ایک دوسرے کے حقوق کی اہمیت کو جانتے نہیں اور اگر جانتے ہیں تو علما یا لا علمی میں ان کی رعایت نہیں کرتے۔ جبکہ یہی حقوق الناس ہیں جو روز محشر بلکہ اس سے پہلے عالم برزخ میں مشکل ساز ہوں گے۔
ہمیں حقوق الناس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور سمجھ کر ان کی رعایت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس اہم موضوع سے سرسری طور پر نہ گذریں۔ بلکہ دقت کریں اور ہر آن اور ہر لمحہ اس پر نظر رکھیں تاکہ کسی بندہ خدا کا حق پامال نہ ہو۔ شریعت اسلام اور دین مبین میں جاندار اور غیر جاندار سب کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ ہم یا تو انھیں جانتے نہیں یا اگر جانتے ہیں تو پھر دقت اور احتیاط سے کام نہیں لیتے ہیں۔ جبکہ یہی امور انسان کے لئے مشکل بن جائیں گے۔ جس کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے اور ہم جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔
لہذا دوستو! عزیزو! اس حق کو اہمیت دو کیونکہ خدا ارحم الراحمین ہے وہ صاحب معاملہ ہے وہ اپنے حق کو معاف کرسکتا ہے اگر اس کے حق میں کوئی کوتاہی ہوئی ہوگی لیکن انسانوں کے حقوق کو وہ معاف نہیں کرے گا بلکہ آپ نے جن کے حقوق ضائع اور پامال کئے ہیں ان سے معافی کی درخواست کریں ۔ اگر وہ آپ کو معاف کردیتے ہیں تو خدا بھی اس کا مواخذہ نہیں کرے گا اور معاف کردے گا۔ اس حق الناس کو اللہ، رسولخدا(ص)، امام (ع) اور آپ کے مکتب کے علماء اور زہاد نے بہت اہمیت دی ہے اور دیتے ہیں۔ ہمیں اس کے بارے میں چوکنا رہنا چاہیئے کہ کہیں کسی کا کوئی حق پامال نہ ہو۔ کسی کے حق میں غلط بیانی نہ ہوجائے۔ کسی کی حق تلفی نہ ہوجائے، ہمارے رویہ سے کسی کی حق پوشی نہ ہوجائے۔ حق الناس کے بارے میں بے حد احتیاط، دقت اور توجہ کی ضرورت ہے۔
خداوند عالم ہم سب کو ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔