تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی اسلامی کانفرنس کا انعقاد کر کے اسلامی اتحاد پر مبنی جس قلعے کی تعمیر شروع کی تھی حقیقت میں اس پیش بندی کے پیچھے جو اسکول آف تھاٹ تھا اسکے دو معمار تھے ایک ذوالفقار علی بھٹو اور دوسرا شاہ فیصل۔ ایک کا دماغ اور دوسرے کے وسائل۔ سامراجی قوتوں کو جب یہ یقین ہوگیا کہ ان دونوں کو اگر جلد سے جلد صفحہ ہستی سے نہ ہٹایا گیا تو پھر بات ہاتھ سے نکل جائے گی چنانچہ ان اسلام دشمن سامراجی قوتوں نے سب سے پہلے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو 25 مارچ 1975ء کو انکے اپنے ہی بھتیجے فیصل بن مسعید جو تازہ تازہ امریکہ سے واپس آیا تھا کے ہاتھوں قتل کروا کر اس عمارت کی پہلی دیوار گرائی۔
یہاں پر تاریخ ایک اور ڈویلپمنٹ دیکھتی ہے کہ وہ شاہ ایران جو اسلامی کانفرنس میں بذات خود شرکت نہیں کرتا اور امریکن اسے اپنا سب سے بڑا اتحادی بھی قرار دیتے ہیں وہی شاہ ایران شاہ فیصل کے بعد بھٹو اور پاکستان کا سب سے بڑا حمایتی نظر آتا ہے اور 1976ء میں شاہ خالد اور متحدہ عرب امارات کے شیخ زید بن سلطان کے ساتھ ملکر پاکستان مخالف افغانستان کے سردار داؤد کو پاکستان کی حمایت پر اسطرح راضی کر لیتا ہے کہ اسلامی بلاک کا وہ خواب جو بھٹو اپنی زندگی کا مشن بنا بیٹھا تھا پھر سے ایک حقیقت لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس نئی ڈویلپمنٹ میں سامراجی قوتوں کے پاس ایک ہی چارہ رہ جاتا ہے کہ جس طرح بھی ہو اسلامک بلاک پر مشتمل اس نئی ابھرتی طاقت کے موجد ذوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑائی جائے چنانچہ اسلام کے نام پر اسلام پسندوں کے ہاتھوں اسلام ہی کے اس عظیم مجاہد سے چھٹکارہ پانے کیلئے ایک اسٹیج تیار کیا جاتا ہے اور عالم اسلام کے اس عظیم مجاہد کو اسکے اس جرم کی پاداش میں کہ وہ اسلام کا قلعہ تعمیر کرنے جا رہا ہے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ 1979-1977 کے یہ وہ دو سال ہیں جب براعظم ایشیا کے اس خطے میں بیشمار تغیرات جنم لیتے ہیں جہاں ایک طرف بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا ہے تو وہیں افغانستان میں سردار داؤد کا تختہ اْلٹ جاتا ہے۔ بات صرف یہاں تک نہیں رکتی پاکستان اور افغانستان کے ہمسائے میں واقع ایران میں بھی وہاں کے حکمران شاہ ایران کو اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑتا ہے اور پھر وہاں ایسے اسباب پیدا کیے جاتے ہیں کہ طاقت کے لحاظ سے وہ ایران جو دنیا کی پانچویں بڑی طاقت نظر آ رہا ہوتا ہے دیکھتے دیکھتے وہاں شکست و ریخت کا عمل اس طرح شروع کیا جاتا ہے کہ وہ قوم جو اپنے انقلاب کے ثمرات سے ابھی مستفیذ ہونا شروع نہیں ہوتی اسے ایک ہولناک جنگ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ امام خمینی کی ذات کو لیکر پروپیگنڈہ کے ذریعے کچھ اسطرح کا تاثر قائم کیا جاتا ہے کہ اسلام میں ایک طرف امام خمینی اور دوسری طرف باقی عالم اسلام کھڑا نظر آتا ہے اور اسطرح ایک کامیاب حکمت عملی کے ذریعے 1974ء میں بھٹو کے متعارف کردہ اسلامی امہ کے تشخص کو ریزہ ریزہ کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے راقم اگر یہ عرض کرے کہ اسلام دشمنوں کی حکمت عملی کی اگلی کڑی 1979ء میں پاکستان اور ایران کو آپس میں لڑا کر تباہ کرنا تھا تو شائد بڑے بڑے پنڈت اس کا تمسخر اڑائیں۔
اگر افغانستان میں سوویت یونین کی افواج داخل نہ ہوتی تو عراق اور ایران میں ہونے والی جنگ پاکستان اور ایران میں لڑی جانی تھی کیونکہ اسلام دشمنوں کا مقصد صرف ایران کو کمزور کرنا نہیں تھا بلکہ وہ پاکستان اور ایران دونوں کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔
قارئین اختلاف اپنی جگہ لیکن پروفیشنل ایمانداری تقاضا کرتی ہے کہ جہاں کسی کا صحیح قدم ہو وہاں اس کی تعریف کر دینی چاہیئے بس راقم کے نزدیک یہ ضیاالحق حکومت کی پہلی دور اندیشی تھی کہ ایران اور پاکستان کے درمیان فرقہ پرستی کی بنیاد پر نظریات کے واضع فرق کو اس نے حکومتی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونے دیا اور جیسے ایران نے پاکستان کی آزادی پر سب سے پہلے اسے تسلیم کیا اسی طرح پاکستان نے بھی اسلامی انقلاب کے بعد سب سے پہلے امام خمینی (رح) کی حکومت کو تسلیم کر کے پاکستان کا قرض چکا دیا اور 10 مارچ 1979ء کو اپنے وزیر خارجہ آغا شاہی کو ایران کے دورے پر بھیج دیا جہاں اس نے پہلے ایرانی وزیر خارجہ کریم سنجابی اور پھر گیارہ مارچ کو امام خمینی سے ملاقات کی اور ضیاالحق کا یہ پیغام پہنچایا کہ وہ امام خمینی کو عالم اسلام کا سرمایہ سمجھتا ہے اور آگے چل کر ایران عراق جنگ میں امریکہ اور سعودیہ کے دباؤ کے باوجود عراق کی حمایت سے گریز کرتے ہوئے اپنے آپ کو غیرجانبدار رکھا بلکہ کچھ حقائق تو اس بات کی چغلی بھی کھاتے ہیں کہ اس حقیقت کے باوجود کہ بظاہر 1981ء میں پاکستان نے قائم ہونے والی خلیج تعاون کونسل کی حفاظت کیلیئے سعودی عرب اپنے چالیس ہزار فوجی بھیجے بالکل اسی طرح جیسے اب چونتیس ممالک پر بننے والی اسلامی فوج میں اج تقریباً ایک ڈویژن فوج بھیجی ہے لیکن عراق ایران جنگ میں در پردہ غیر حکومتی سطح پر ایران کو سلک وارم اور سٹنگر مزائل کی فراہمی کا بندوبست بھی کیا جو ایران کی سلامتی کے ضامن بھی بنے۔ ایران عراق جنگ میں عراق کی طرف سوویت یونین کے جھکاؤ نے بیشک ایران کو پاکستان کے قریب کر دیا تھا لیکن تاریخی حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ اسی دوران افغانستان کے حوالے سے ایران اور پاکستان کے درمیان کچھ تناؤ اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب پاکستان افغانستان میں پشتونوں پر مشتمل اتحادیوں اور ایران تاجکوں پر مشتمل اتحادیوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اور یہ تناؤ اس وقت بڑھنا شروع ہو جاتا ہے جب سوویت یونین 1989ء میں افغانستان سے نکلتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پر ایران اور سعودیہ میں فرقہ وارانہ نظریاتی جنگ ایک نیا رْخ اختیار کرتی ہے اور اس پراکسی وار کا میدان پاکستان کی سرزمین بنتی ہے جسکا خمیازہ ہم اج بھی رہے ہیں۔ گو کہ 1995ء میں پاکستان میں اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو ایران کا سرکاری دورہ کرتی اور حالات کو نارمل کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن 1998ء میں جب مزار شریف پر طالبان غلبہ حاصل کرتے ہیں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق جب شیعہ مسلک کے ہزاروں پیروکار طالبان کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں اور خاصکر جب طالبان گیارہ ایرانی سفارتکار پینتیس ٹرک ڈرائیور اور ایک صحافی کو پکڑنے کے بعد سب کو قتل کر دیتے ہیں تو یہ حالات ایران کو اس نہج پر لے آتے ہیں کہ وہ افغانستان پر حملہ کرنے کی پیش بندی شروع کر دیتا ہے۔