شہید مفتح 1307 ش میں ہمدان کے ایک روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے، مقدمات کی تعلیم کے بعد قم آئے اور امام خمینی (رح) اور علامہ طباطبائی جیسے اکابر علماء استفادہ کیا اور حوزہ ایک عظیم مدرس ہوگئے۔ انہوں نے اکابر اساتذہ کے باوجود یونیورسٹی گئے اور وہاں سے ڈاکٹریت کی ڈگری لی۔ شہید مفتح یونیورسٹی اور مدارس کے جدا کرنے کی استعمار کی سازش کو اچھی طرح سمجھتے تھے لہذا انہوں نے ان دونوں اہم گروہ کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی اور جو ان طاقتوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ پہلوی حکومت سے مقابلہ کیا۔ 1340 ش سے 1342 ش تک مختلف شہروں میں اسلامی تحریک کے موقفوں اور پہلوی حکومت کے چہرہ نقاب اٹھانے میں آپ کی تقریریں کافی موثر ثابت ہوئیں۔ تو ساواک نے باخبر ہونے پر سب کچھ تعطیل کردیا اور شہید مفتح کو ایران کے جنوبی علاقہ میں جلاوطن کردیا۔ پھر جلاوطنی کے بعد قم آنے پر پابندی لگائی گی تو آپ نے تہران الہیات یونیورسٹی میں تدریس شروع کردی۔ اور یونیورسٹی کی مسجد میں امام جماعت ہوگئے۔ اسی طرح اکثر آپ پر ساواک کا قہر ٹوٹتا رہا اور آپ کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالتے رہے۔ شہید مفتح ایک خدارسیدہ، روشن فکر، دین کے سچے مبلغ اور اسلام کے وفادار انسان تھے۔ آپ نے تہران میں امامت کے دوران پہلی بار امام خمینی (رح) کا کھلم کھلا نام لیا اور امام کی رہبری کی تایید کی۔ آخر کار آپ کو 27/ آذر 1358ش کو یونیورسٹی میں داخل ہوتے وقت فرقان گروہ کے توسط گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ اس عظیم شہید کی کارکردگیوں اور مجاہدت کی مناسبت سے اس دن کو علماء اور طالبعلموں کے درمیان اتحاد کے دن سے یا د کیا گیا۔
آنکھ بند کرکے کسی کو قتل کرنے کی منطق گوناگوں سازشوں کی ایک شاخ تھی جو انقلاب اور تازہ تاسیس نظام کے خلاف بنائی گئی تھی اور کیڑے مکوڑے کے مانند چھوٹے چھوٹے گروہ انقلاب کی کامیابی کے آغاز میں بیرونی طاقتوں سے مدد لیکر قدم جمارہے تھے۔ یہ لوگ دشمنوں کے اغراض و مقاصد کی تکمیل اور مختلف ابعاد میں تکلیف دہ حرکتیں انجام دینے میں اساسی کردار رکھتے تھے۔ شہید مطہری اور شہید مفتح جیسی ممتاز اور نمایاں شخصیات کا مڈر کرنے میں معمولی فرقان گروہ کا اقدام انہی میں سے ایک ہے۔ حضرت امام خمینی (رح) نے شہید مفتح کی 27/ آذر کو شہادت کی مناسب سے ایک پیغام دیا اور شہادت اور شہادت طلبی کے جذبہ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کے مڈر کرنے کی ناپاک سازش کو غلط اور بے بنیاد بتایا اور اس کی مذمت کی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
اناللہ و انا الیہ راجعون... قرآن کی منطق یہ ہے کہ ہم سب خدا سے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں پلٹ کر چلے جائیں گے اور اسلام کا راستہ ہدف کی راہ میں شہادت پر مبنی ہے۔ اولیائے الہی (علیم السلام) نے شہادت کو ایک دوسرے سے میراث میں پایا ہے، ہمارے جوان راہ خدا میں شہید ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ اور ہمارا برا چاہنے والے ہر جگہ حیران ہوکر دردناک فنداز میں مڈر کررہے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں کس بات سے ڈرارہے ہیں؟ امریکہ خوش ہو رہا ہے (قرآنی سپاہیوں) اور قوم کے دلوں میں رعب ڈال کر خدا کی راہ میں پاکیزہ جہاد میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ اس بات سے غافل هے کہ موت کا خوف ان لوگوں کےلئے ہے جنہوں نے دنیا کو اپنا ٹھکانہ جانا ہے، اور ابدی منزل اور رحمت حق کے جوار سے بے خبر ہیں۔ یہ لوگ دل کے اندھا پن کی وجہ سے ہماری عزیز اور دلیر قوم کے ہر شہادت میں جوش و ولولہ کو نہیں دیکھتے اور صم بکم عمی فہم لا یعقلون بنے ہوئے هیں۔
یہ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ واقعہ کربلا کے انقلاب کو 1300/ سال گذر رہے ہیں اور آج بھی ہمارے شہداء کا خون جوش مار رہا ہے اور ہماری ملت جوش و جذبہ سے لبریز ہے۔ جناب حجت الاسلام محترم دانشور آقائے مفتح اور اسلام کے دو عزیز پاسدار ( رحمہم اللہ علیہم) درجہ شہادت پر فائز ہوئے اور بارگاہ خداوندی میں چلے گئے۔ اور ہماری قوم اور ہمارے جوانوں کے دلوں میں انقلاب پیدا کرگئے اور اسلامی تحریک کی آگ زیادہ سے زیادہ بھڑکا گئے۔ اور ہماری ملت کی تحریک اور ان کے قیام کو کہیں زیادہ متحرک بنادیا۔ خداوند عالم ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور اپنے نور عظمت سے فیضیاب کرے۔ امید تھی کہ استاد محترم کے علم و دانش اور ان کی زبان سے اسلام اور اسلامی تحریک کی ترقی کے لئے استفادہ ہوگا۔ امید هے کہ ان جیسے نمایاں افراد کی شہادت سے ہم فیض حاصل کریں۔ میں ان آبرومند مردان خدا کی شہادت پر تبریک کہتا ہوں اور ان کے پسماندگان اور امت مسلمہ کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔
شہدائے راہ حق پر سلام