پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی (ع) کی سادہ زیستی کے بارے میں امام (رح) فرمایا کرتے تھے:
پیغمبر اکرم (ص) کا جب انتقال ہوا تو آپ نے کوئی چیز بطور میراث اپنے پیچھے نہ چھوڑی۔ اور حضرت علی (ع) وہ حاکم تھے کہ جن کی حکومت نے پورے مشرق کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ سرزمین مغرب کے کچھ علاقے بھی آپ کے کنٹرول میں تھے۔ لیکن وہ ایسے حاکم تھے کہ جن کے اس چمڑے کا ایک گدا تھا کہ جس پر رات کو دونوں میاں بیوی سوجایا کرتے تھے اور دن کو اسی چمڑے پر اپنے اونٹ کو چارا ڈالتے تھے۔
یہ شیوہ زندگی، ایک ایسے بادشاہ کا تھا کہ جو اس زمانے ہر عام و خاص کی نظر میں سلطان اور حاکم وقت تھا۔ وہ خود کام کیا کرتے تھے بلکل عوام کی طرح اور کوئی ان کے اور عام آدمی کے مابین یہ فرق نہیں کرسکتا تھا که ان کام کرنے والوں میں رعایا کون ہے اور حاکم کون ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کام اس لئے نہیں کیا کرتے تھے کہ مال و دولت جمع کریں بلکہ وہ اس لئے کام کیا کرتے تھے کہ کام کے بدلے میں جو مزدوری ملے اسے راه خدا میں وقف کریں۔ اسی دن کہ جس دن آپ (ع) کے ہاتھ پر مسلمانوں نے بیعت کی آپ (ع) نے اس دن بھی اپنا بیلچہ اور کسی اٹھائی اور اپنے معمول کے کاموں کو انجام دینے چلے گئے۔ وہاں پر آپ (ع) ایک کنواں کھود رہے تھے اور یہ کام خود اپنے ہاتھوں سے کررہے تھے۔ جب یہ کنواں کھودیا، اس وقت لوگ آئے اور انہوں نے آپ کو مبارک باد دی اور سوچا کہ یہ کنواں آپ (ع) کی اولاد کی ملکیت ہوگا لیکن آپ (ع) نے اسی وقت کہا: کاغذ قلم دوات لاؤ، جب کاغذ قلم دوات لایا گیا تو آپ (ع) نے لکھا: یہ کنواں، میں راہ خدا میں وقف کرتا ہوں۔
یہ اس شخص کی سخاوت کا عالم ہے که جس کی خوراک جو کی ایک خشک روٹی تھی اور کبھی بھی اس سے زیادہ آپ نے غذا تناول نہ فرمائی اور اس روٹی کے بھی چند ایک لقمے کھاتے نہ کہ ساری روٹی۔ اس لئے ہم ایک ایسے ہی حاکم کی تلاش میں ہیں لیکن وہ ہمیں آج تک نہ مل سکا لہذا ہم نے ان سے کم تقوا افراد پر اس لئے بھروسہ کرلیا کہ خود امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا تھا کہ: تم ہماری طرح زندگی بسر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہو لیکن کوشش کرو کہ صاحب تقوا بن کر زندگی بسر کرو.....
اخلاق کارگزاران در کلام و بیان امام خمینی(رح)، ص 103