مسلمانوں کی راہ کا الگ ہونا اور ان کا مختلف فرقوں میں تقسیم ہونا آج اور کل کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا آغاز صدر اسلام سے ہوا ہے۔ اس مسئلہ کی علتوں سے صرف نظر جو کچھ یقینی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس اختلاف اور پراکندگی سے زیادہ تر نقصان ہی کیا ہے اور خسارہ میں رہے ہیں اور اسلام دشمن عناصر نے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ مسئلہ اس وقت سے لیکر آج تک جہالت اور کمزوری کے سبتر پر بعض ماننے والوں کے اجتماعی، سیاسی اور دینی بنیادوں کے کمزور ہونے اور بعض حکام اور اکابر مسلمین کی دنیا پرستی اور خود پسندی کا سبب ہوا اور اس ضعف اور جہالت سے پروان چڑھا ہے اور آج اس شجرہ خبیثہ کے تلخ نتائج قدامت پسندی، شدت پسندی اور ایک پارٹی اور خوش مقدسی کے سیاسی میں مشاہدہ کررہے ہیں۔
البتہ خوشی کا مقام ہے کہ اختلافات کے ہمراہ اختلاف میں کمی لانے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی قائم کرنے کے لئے اقدامات اور کوششیں ہوئی ہیں کہ عصر حاضر میں موثرترین اور سب سے بڑے اقدامات کو امام خمینی (رح) سے متعلق جاننا چاہیئے۔ حضرت امام خمینی (رح) فکر و نظر اور کردار و عمل کے لحاظ سے اختلاف اور تفرقہ سے دوری اور امت مسلمہ کے در میان وحدت کا عقیدہ رکھتے تھے اور اسی پر پابند تھے۔ آپ ایک تعبیر میں فرماتے ہیں:
ہم اہلسنت کے ساتھ ایک ہی ہیں، ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اگر کوئی ایسی بات کرے جو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف کا باعث ہو تو جان لیجئے کہ یا وہ لوگ جاہل ہیں یا پھر ان لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالتے رہتے ہیں۔ شیعہ اور سنی کی بات نہیں ہے ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ (صحیفہ امام، ج 6، ص 133)
امام خمینی (رح) کے آثار اور بیانات اور تقریرات میں کہیں بھی شیعہ اور سنی کے اختلافات کو بڑھاوا دینے کا سراغ نہیں ملے گا بلکہ آپ کے رائج علمی مطالب میں بھی کہیں نہیں دکھائی دے گا۔ بلکہ جو کچھ ہے وہ اختلافات کو ختم کرنے اور اتحاد و یکجہتی کی طرف قدم بڑھانے کی دعوت ملے گی۔ عمل میں بھی خواہ انقلاب سے پہلے ہو یا بعد میں آپ کی گفتار رفتار اور سیاسی اور دینی رہبری کے اقدامات میں بھی اتحاد پر سچا عقیدہ اور مصلحت اندیشی سے دور امر ہے۔
ہفتہ وحدت کی بنا بھی اسی امر کے لئے ہے اور یہ عقلمندی اور درستگی کے ساتھ عملی ہوئی ہے۔ شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات کے نہ ہونے کو پیغمبر (ص) کی تاریخ ولادت میں انتخاب، خواہ ظاہری لحاظ سے ہو یا مفہومی لحاظ سے بہترین ممکن انتخاب ہوسکتا ہےاس لئے کہ رسول اکرم(ص) قرآن کریم کے بعد مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا مرکز اور وجہ اشتراک ہیں۔ حضرت امام خمینی (رح) اپنی عمر کے آخری لمحہ تک عالم اسلام کے درمیان اتحاد و اتفاق کے حامی اور خواہاں رہے ہیں اور بعض قدامت پسند حکام اور خوش مقدس علماء کا حساب امت مسلمہ سے جدا رکھتے تھے اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے اور جدائی ڈالنے کے سلسلہ میں برا چاہنے والوں کی چالوں سے باخبر کرتے رہتے تھے۔
ہم اس وقت امام خمینی (رح) کی اتحاد و یکجہتی کی دعوت کی حقانیت اور آپ کی نصیحتوں کے شاہد رہے ہیں اور جہالت، قدامت پسندی اور اختلاف کا ثمرہ تکفیری گروہوں اور دہشت گرد تنظیموں کے قالب میں کہ سامراجی طاقتوں کے اشارہ پر مسلمانوں اور انسانوں کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں؛ کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ شاید اس معرکہ میں دوسرے تمام ادوار سے زیادہ حضرت امام خمینی (رح) کی سیرت اور نظر کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوگیا ہے۔