دشمن کا مقابلہ کرنے کے اصول
تیسرا اصول : اختلافات، کشمکش اور حالات جنگ میں دینی احکام کی اطاعت اور پیروی
دوسرا قدم: اسلامی حکومت کی تشکیل
امام خمینی (رح) کا دوسرا قدم فکری اختلافات اور ذاتی دشمنیوں کو دین کے تابع کرنا، حکومت اسلامی کا آئین بنانا اور اس کی نوعیت کو بیان کرنا تھا کہ وہ اسلامی طرز کی ایک جمہوری حکومت ہوگی۔
حضرت امام (رح) نظام کی مدیریت کرنے اور جمہوری اسلامی کے استقرار کے لئے دو بنیادی نکات کے پابند تھے:
1. حکومتی نظام کی علمی اور عقلی طریقوں سے مدیریت
آپ نے ایسے نظام کی بنیاد رکھی کہ جس نے مکتب انقلاب کے متن کو کتابوں سے نکال کر معاشرے میں عملی طور پر لاگو کیا اور اسے لفظوں کے خول سے باہر نکال کر معاشرے کے عقلی ترین اور منطقی ترین صاحب فیصلہ ، نظام کے طور پر متعارف کروایا اور وہ حسرتیں جو کہ صرف فکر اور اندیشے کی حد تک محدود تھیں انہیں ایک عملی نظام کی صورت میں پیش کیا۔
افکار اور تصورات کو عملی جامہ پہنانے اور ایک نظام کو تبدیل کرنے کے ضمن میں اس بات کا بیان انتہائی ضروری ہے کہ امام (رح) کی ایک منفرد خصوصیت ہے کہ جو آپ کو دوسرے تمام انقلابی قائدین سے ممتاز کرتی ہے، یہ ہے کہ آپ نے انقلاب اسلامی کے پہلے دن ہی سے اپنی تحریک کے اہداف کو عملی شکل دینا شروع کردی۔ جس زمانے، آپ فرانس میں تھے اس وقت کوئی شخص یہ گمان ہی نہیں کرسکتا تھا کہ انقلاب کامیاب ہوجائے گا لہذا آپ نے اس زمانے، ملکی آئین کا مقدمہ لکھنے اور شورائے انقلاب کو تشکیل دینے کا حکم دیا۔ اور جب انقلاب کامیاب ہوگیا تو اسی کی بنیاد پر قائم مقام حکومت کا تعین کیا۔ لہذا آپ کے ان امور کا مطلب یہ تھا کہ مختلف تنظیموں اور اداروں کا انعقاد کیا جائے تا کہ ان کے ذریعے معاشرے کے پیچیدہ ترین مسائل کا شایستہ طریقے سے مل کر جواب دیا جائے اور اس کے تمام ارکان معاشرے میں محکم انداز میں اپنے پاؤں جماسکیں۔
2. نمائندگان اور مسئولین کو وسیع پیمانے پر فیصلے کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرنا
حضرت امام (رح) کی مدیریت میں ایک اور اہم ترین بات یہ تھی کہ آپ (رح)، نظام جمہوری اسلامی میں تمام مسئولین کی وسیع پیمانے پر فیصلہ کرنے پر حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے اور کبھی بھی ان کے شعبوں میں بے جا مداخلت نہیں کیا کرتے تھے۔ مدیریت کی بدترین شکل یہ ہے کہ تمام فیصلوں کا اختیار صرف ایک ہی شخص کے ہاتھ میں ہو اور یہی طریقہ استبدادی اور ڈکٹیٹرشپ کا طریقہ ہے کہ جو آخر پر اس نظام کی تباہی اور نابودی کا سبب بنتا ہے۔ دنیا میں مختلف انقلابوں کے قائدین اور رہبروں کے انقلابوں کے نابود ہوجانے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ انقلابی نظام چلانے کے لئے دوسروں کو کسی طرح کے فیصلوں کا حق نہیں دیتے اور تمام اختیارات ان کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوتے ہیں لہذا اس بات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جیسے ہی وہ قائد مرتے یا غیر فعال ہوتے ہیں تو ان کا انقلاب بھی ان کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارا انقلاب امام (رح) کی اس طریقہ کار کے صدقے میں ہر روز پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ہے۔