رسول اللہ: تمہاری سعادت و شقاوت "حسین" کے ساتھ تمہارے روئیے پر منحصر ہے؛ آگاہ ہو جاؤ کہ حسین جنت کا ایک دروازہ ہے جو بھی اس سے دشمنی کرےگا، خدا اس پر جنت کی خوشبو حرام کر دےگا۔
ولادت با سعادت حضرت امام حسین بن علی علیہما السلام مدینہ منورہ میں ہجرت کے چوتھے سال تین شعبان کو ہوۓ؛ اگرچہ آپ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف اقوال ہیں لیکن قول مشہور یہ ہےکہ آپ، تین شعبان ہجرت کے چوتھے سال میں پیدا ہوۓ۔
ولادت کے بعد آپ کو آپ کے جد بزرگوار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے پاس لایا گيا؛ آپ کو دیکھ کر رسول اکرم (ص) مسرور و شادمان ہوۓ؛ آپ کے دائيں کان میں اذان کہی اور بائيں کان میں اقامت؛ ولادت کے ساتویں دن ایک گوسفند کی قربانی کرکے آپ کا عقیقہ کیا اور آپ کی والدہ جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا سے فرمایا: " بچے کا سر مونڈ کر بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ دو"۔
امام حسین علیہ السلام نے چھ سال چند ماہ کا عرصہ، اپنے جد امجد رسول اللہ کے زیر سایہ گزارا اور 29 سال و گیارہ ماہ اپنے پدر بزرگوار امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور دس سال کا عرصہ اپنے برادر بزرگوار امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کے ساتھ گزارا؛ امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد، آپ کی امامت کی مدت دس برسوں پر مشتمل ہے۔
روایات میں آیا ہےکہ سبطین علیھما السلام کے اسماء مبارکہ کا انتخاب خود رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے اور یہ نام خدا کے حکم سے رکھے گئے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہےکہ آپ نے فرمایا: جب حسن کی ولادت ہوئی تو میں نے اس کا نام اپنے عم محترم حمزہ کے نام پر رکھا اور جب حسین پیدا ہوۓ تو اس کا نام اپنے دوسرے چچا جعفر کے نام پر رکھا۔ ایک دن رسول اکرم (ص) نے مجھے طلب فرمایا اور کہا: مجھےخداوند نے حکم دیا ہےکہ ان دونوں بچوں کے نام بدل دوں اور آج سے ان کے نام " حسن " اور " حسین " ہونگے۔
ایک اور روایت میں ہےکہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا: میں نے اپنے بچوں حسن و حسین کے نام فرزندان ہارون کے ناموں پر رکھے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو شبر و شبیر کہتے تھے اور میں نے اپنے بچوں کے نام اسی معنی میں، عربی میں " حسن و حسین " رکھے ہیں۔
اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ جب حسین بن علی کی ولادت ہوئی تو رسول اللہ تشریف لاۓ اور فرمایا: اسماء میرے بیٹے کو میرے پاس لاؤ۔ میں نے بچے کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر رسول اللہ کی گود میں دیا۔ آپ نے بچے کے دائيں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور ایسے عالم میں جب آپ حسین [علیہ السلام] کو گود میں لیے ہوۓ تھے گریہ بھی فرما رہے تھے!
میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کے گرئیے کا کیا سبب ہے؟
آپ نے فرمایا: میں اس بچے کےلیے گریہ کر رہا ہوں!
میں نے کہا: یہ بچہ تو ابھی پیدا ہوا ہے، پس گریہ کیسا؟
فرمایا: ہاں اسماء! ایک سرکش گروہ اس کو قتل کرےگا، خدا انہیں میری شفاعت سے محروم کرے۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا: یہ بات فاطمہ کو مت بتانا ابھی اس کے بچے کی ولادت ہوئی ہے۔
حضرت امیرالمؤمنین کا صفین جاتے ہوۓ گزر کربلا سے ہوا۔ آپ وہاں کچھ دیر کےلیے رکے اور اس قدر گریہ کیا کہ زمین آپ کے آنسووں سے تر ہو گئی۔ آپ نے فرمایا: ایک دن ہم رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے تو دیکھا کہ آپ گریہ فرما رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟ رسول اللہ نے فرمایا: ابھی ابھی جبرئيل آۓ تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ میرا بیٹا " حسین " دریاۓ فرات کے کنارے، کربلاء نامی زمین پر مارا جاۓگا اور جبرئيل مجھے سنگھانے کےلیے کربلا کی ایک مٹھی خاک لےکر آۓ تھے، جسے دیکھ کر میں گرئیے پر ضبط نہ کر سکا۔
اس کے بعد امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: یہیں ان کا پڑاؤ ہوگا یہاں ان کا خون بہایا جاۓگا اور آل محمد کے بعض لوگ اس صحرا میں قتل کیے جائيں گے جن کے حال پر زمیں و آسماں گریہ کریں گے۔
متعدد روایات میں وارد ہوا ہےکہ حضرت امام حسین علیہ السلام رسول اللہ (ص) سے سب سے زیادہ شباہت رکھتے تھے۔ اصحاب نے اس بات کا ذکر امام حسین علیہ السلام کی صورت و سیرت کے سلسلے میں متعدد مرتبہ کیا ہے۔ خاص طور سے آپ کی قامت رسول اسلام سے بہت زیادہ مشابھت رکھتی تھی اور جو بھی آپ کو دیکھتا، اسے رسول خدا یاد آ جاتے تھے۔
انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں عبید اللہ بن زیاد کے پاس تھا کہ حسین ابن علی کے سر کو ایک طشت میں دربار میں لایا گيا؛ ابن زیاد نے چھڑی سے آپ کی ناک اور صورت کی طرف اشارہ کیا اور کہا: میں نے اس سے اچھا چہرہ نہیں دیکھا ہے: میں نے کہا: اے ابن زیاد، کیا تو نہیں جانتا کہ حسین ابن علی، رسول اللہ سے سب سے زیادہ شباہت رکھتے تھے؟
امام حسین علیہ السلام کی ذات مبارک کا ایک خوبصورت ترین اور ممتاز ترین پہلو آپ اور آپ کے برادر بزرگوار امام حسن علیہ السلام سے رسول اللہ کی شدید محبت اور بے انتہا توجہ ہے۔ یہ امر اس قدر واضح اور عیان تھا کہ اہل سنت کی متعدد کتب حدیث و تاریخ میں اس کا ذکر ملتا ہے:
رسول اللہ (ص) اپنے بعض اصحاب کے ساتھ کسی کےگھر دعوت پر تشریف لےجا رہے تھےکہ راستے میں امام حسین علیہ السلام کو دیکھا، آپ کھیل میں مشغول تھے، رسول اللہ آگے بڑھے اور حسین کو گود میں لینا چاہا لیکن امام حسین علیہ السلام، آپ کے ہاتھ نہیں آ رہے تھے؛ رسول اللہ بھی ہنستے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے، یہاں تک کہ آپ کو آغوش میں لے لیا اس کے بعد گردن پر ایک ہاتھ اور ٹھوڑی کے نیچے ایک ہاتھ رکھ کر آپ کے لبوں پر بوسہ دیا اس کے بعد فرمایا:
"حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، خدا اس سے محبت کرتا ہے، جو حسین سے محبت کرتا ہو"۔
زید بن حارثہ نقل کرتے ہیں کہ میں کسی کام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت میں پہنچنا چاہتا تھا۔ رات میں بیت الشرف گيا اور دق الباب کیا، رسول اللہ نے دروازہ کھولا میں نے دیکھا آپ کی عبا میں کچھ ہے، آپ باہر تشریف لاۓ میں نے اپنے کام کے بجاۓ یہ پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ کی عبا میں کیا ہے؟
آپ نے اپنی عبا ہٹائی اور حسن و حسین کو جو آپ کی گود میں تھے مجھے دکھایا اور فرمایا: یہ میرے بچے اور میری بیٹی کے بچے ہیں۔ اس وقت آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا: خدایا تو جانتا ہے میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور ان سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت فرما۔
اہل بیت اور امام حسین علیہم السلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی محبت کو رشتہ داری کی بناء پر محض ایک جذباتی لگاؤ نہیں کہا جا سکتا بلکہ اہل سنت کی کتب میں منقول روایات پر توجہ کرنے سے واضح ہوتا ہےکہ رسول اللہ جنہیں اسلامی معاشرہ کے مستقبل کا علم تھا اس طرح حق و باطل میں امتیاز کرنا چاہتے تھے؛ در حقیقت رسول اللہ نے اپنی ان احادیث سے راہ حق پر چلنے والوں کو مستقبل میں اہل بیت علیہم السلام کے خلاف ہونے والی عداوتوں اور دشمنیوں سے آگاہ کر دیا تھا۔ ان روایات کے علاوہ دیگر روایات میں رسول خدا نے اہل بیت سے جنگ کو اپنے خلاف جنگ سے تعبیر فرمایا ہے۔
اہل سنت کے ممتاز علماء نے زید بن ارقم اور ابو ہریرہ سے اور دیگر افراد سے نقل کیا ہےکہ رسول اللہ نے اپنی شہادت کے وقت علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام سے فرمایا: انّی حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم " میں اس کے خلاف جنگ کرونگا جو تمہارے خلاف جنگ کرےگا اور اس سے دوستی کرونگا جو تم سے دوستی کرےگا"۔
رسول اللہ (ص) ایک دن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کےگھر کے قریب سے گزر رہے تھے آپ کو گھر سے حسین کے رونے کی آواز سنائی دی؛ آپ نے فرمایا: بیٹی حسین کو چپ کرو، کیا تم نہیں جانتی کہ اس بچے کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے؟
حذیفہ یمان روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (ص) ایسے عالم میں مسجد میں داخل ہوۓ کہ امام حسین علیہ السلام آپ کے شانے پر بیٹھے ہوۓ تھے اور آپ، امام حسین علیہ السلام کے پیروں کو اپنے سینے پر دبا رہے تھے؛ آپ نے فرمایا: میں جانتا ہوں آپ لوگ کس مسئلے کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں۔ یہ حسین ابن علی ہیں جن کی دادی بہترین دادی ہیں ان کے جد محمد رسول اللہ سید المرسلین ہیں ان کی نانی خدیجۃ بنت خویلد وہ پہلی خاتوں ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائيں تھیں، یہ حسین ابن علی ہیں جن کے والدین بہترین والدین ہیں ان کے والد علی ابن ابیطالب ہیں جو رسول خدا کے بھائی وزیر اور چچا زاد بھائی ہیں اور وہ پہلے شخص ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے تھے اور ان کی والدہ فاطمہ بنت محمد سیدۃ النساء العالمین ہیں۔ یہ حسین ابن علی ہیں جن کے چچا اور پھوپھی بہترین چچا اور پھوپھی ہیں۔ ان کے چچا جعفر ابن ابیطالب ہیں جنہیں خدا نے دو پر عطا کیے ہیں، جن سے وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں پرواز کرکے جا سکتے ہیں۔ ان کی پھوپھی ام ہانی بنت ابی طالب ہیں۔ یہ حسین ابن علی ہیں جن کے ماموں اور خالہ بہترین ماموں اور خالہ ہیں۔ ان کے ماموں قاسم ابن رسول اللہ ہیں اور خالہ زینب بنت رسول اللہ ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ نے حسین کو اپنے شانے سے نیچے اتارا اور فرمایا: اے لوگو یہ حسین ہے جس کے دادا اور دادی بہشت میں ہیں، اس کے ماموں اور خالہ بہشت میں ہیں اور یہ بھی اور اس کے بھائی بھی بہشتی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: اے لوگو میرے ذریعے تمہیں دین حق سے آگاہی حاصل ہوئی اور علی کے ذریعے تمہیں صحیح راہ ملی اور تمہاری ہدایت ہوئی۔ حسن کے وسیلہ سے تمہیں نیکیاں عطا ہوئيں لیکن تمہاری سعادت و شقاوت حسین کے ساتھ تمہارے روئیے پر منحصر ہے؛ آگاہ ہو جاؤ کہ حسین جنت کا ایک دروازہ ہے جو بھی اس سے دشمنی کرےگا، خدا اس پر جنت کی خوشبو حرام کر دےگا۔
رسول اللہ کی زوجہ باوفا ام سلمہ رسول اللہ سے نقل کرتی ہیں:
ایک دن فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، رسول اللہ کےلیے غذا لےکر آئيں اس دن رسول اللہ میرے گھر میں تشریف رکھتے تھے؛ رسول اللہ نے اپنی بیٹی کی تعظیم کی اور فرمایا: جاؤ میرے چچازاد بھائی علی اور میرے بچوں حسن و حسین کو بھی بلا لاؤ تا کہ ہم مل کر کھانا کھائيں؛ کچھ دیر بعد علی و فاطمہ، حسنین کا ہاتھ تھامے ہوۓ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوۓ اسی وقت جبرئيل آیۃ تطہیر لےکر نازل ہوۓ اور کہا: انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا " اے پیغمبر کے اہل بیت، خدا تو بس یہ چاہتا ہےکہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے"۔ احزاب 33
ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا: کساء خیبری لے آؤ (یہ ایک بڑی عبا تھی) رسول اللہ نے علی کو اپنے داہنے طرف زہرا کو بائيں طرف اور حسن و حسین کو زانووں پر بٹھایا اور یہ عبا سب پر ڈال دی اپنے بائيں ہاتھ سے عبا کو سختی سے تھاما اور سیدھا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر تین بار فرمایا:
اللھم ھؤلاء اھل بیتی و حامتی، اللھم اذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا، انا حرب لمن حاربتم وسلم لمن سالمتم و عدو لمن عاداکم " خدایا یہ میرے اہل بیت اور میرا خاندان ہے جیسا کہ تو نے وعدہ کیا ہے ان سے ہر طرح کی برائی کو دور رکھ اور انہیں معصوم و پاک رکھ؛ میں اس کے ساتھ جنگ کروںگا جو ان کے ساتھ جنگ کرےگا اور اس سے میری صلح ہے جو ان سے صلح رکھےگا اور دشمن ہوں اس کا جو ان سے عداوت رکھےگا۔
والسلام علی عبادہ الصالحین؛ التماس دعا