دینی فکر کے احیاء کے سلسلے میں حضرت امام خمینی (ره) کا کردار تاریخ معاصر یا گزشتہ دو صدیوں سے تعلّق رکھتا ہے۔ امام خمینی (ره) کے کردار اور آپ کی اختیار کردہ پالیسیوں کو سمجھنے کیلئے اس مسئلے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ اصلاحی تحریک تاریخ سے الگ نہیں ہوسکتی ہے اور اس کا تعلّق ان مسائل کے ساتھ ہے جو عالم اسلام کی تقدیر کے سلسلے میں پیش آئے تھے۔
ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ دو صدیوں میں یورپ کے طاقتور ہوجانے اور مشرق پر اس کے حملوں سے اس کی حدود کے پھیل جانے کے بعد عالم اسلام کی سرزمینوں پر حملہ کیا گیا اور وسطی یورپ میں دنیائے اسلام اپنے بہت بڑے حصے سے محروم ہوگئی۔ افریقہ اور ایشیا میں دنیائے اسلام کا ایک وسیع حصہ یورپ کی نوآبادی بن گیا اور جو علاقے سامراج کی نوآبادی نہ بنے وہاں سامراجیوں نے اپنی پٹھو حکومتیں قائم کرکے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہے۔
یہاں یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ یورپ نے سیاسی، فوجی اور ثقافتی میدانوں میں ترقی کی اور تسلّط حاصل کیا جس کے ثقافتی اثرات شعوری طورپر اور سوچے سمجھے منصوبوں کے ساتھ اسلامی ممالک کو برآمد کئے گئے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ کسی ایک سرزمین سے متعلق ایک نظریہ کسی دوسری ملت سے متعلق تاریخ اور شرائط کے ساتھ فطری طورپر اسلامی ممالک میں جڑ پکڑ گیا۔ ایسا نظر آتا ہے کہ یورپ کی یلغار کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینا ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔
کتاب ’’اسلام ناب‘‘ میں ضروری غور کرنے، ان اصطلاحات کی تحقیق اور امام خمینی (ره) کی تقاریر کے اقتباسات اور ان تقاریر کی تاریخوں کو یکجا کرنے کے بعد پتہ چلے گا کہ امام خمینی (ره) نے اس مسئلے پر خاص توجہ دی ہے کہ ان دوطرح کے اسلاموں کو الگ الگ کئے بغیر جدوجہد، کامیابی اور انقلاب کی بقا ممکن نہیں ہے۔ صرف ایک اسلام ہی حقیقی ہے اور دوسرے ہر طرح کے اسلام پر درحقیقت گوناگوں مکاتب فکر کا اثر ہے اور ان کا سرچشمہ مختلف گروہوں ، سیاستدانوں ، پٹھو حکومتوں اور ان افراد کے مفادات ہیں جو عوام کو غریب رکھ کر سب کچھ خود ہڑپ کرنا چاہتے ہیں ۔ امام خمینی (ره) فرماتے ہیں کہ یہ اسلام ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور وہ اسلام جس کا سہارا لیا جاسکتا ہے وہ خالص اسلام ہے اور اس کی خصوصیات آپ نے تفصیل کے ساتھ اور مربوط انداز میں بیان کی ہیں ۔
آپ نے اپنی با برکت زندگی کے آخری برسوں میں فرمایا:
’’امریکی اسلام کے مقابلے کی راہ میں خاص پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں اور اس کے تمام پہلو نادار مسلمانوں پر واضح ہونے چاہئیں ۔ افسوس کہ اب تک بہت سی اسلامی ملتوں پر امریکی اسلام اور خالص محمدی(ص) اسلام، ناداروں اور محروموں کے اسلام اور مقدس نظر آنے والے دقیانوسوں ، خدا تعالیٰ کی معرفت نہ رکھنے والے سرمایہ داروں اور بے درد آسائش پسندوں کے اسلام کے حدود مکمل طورپر واضح نہیں ہوئے ہیں اور اس حقیقت کو واضح کرنا بہت اہم سیاسی واجبات میں سے ہے کہ ایک مکتب اور ایک آئین میں دو متضاد اور آپس میں ٹکرانے والے افکار موجود نہیں رہ سکتے ہیں ‘‘۔
آپ کے کلام کے آخری حصہ پر توجہ کرتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ امام خمینی (ره) نے عملی طورپر اس مسئلے کو مدنظر رکھنے کو ایک دائمی اور سیاسی واجب قرار دیا تھا۔
حضرت امام خمینی (ره) ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
’’ایران کے شجاع عوام پوری احتیاط کے ساتھ ایسے نمائندوں کو ووٹ دیں کہ جو اسلام پر عمل پیرا اور عوام کے وفادار ہوں جو عوام کی خدمت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوں ، جو غربت کا ذائقہ چکھ چکے ہوں ، جو اپنی زبان اور عمل کے ساتھ ناداروں کے اسلام، مستضعفین کے اسلام، تاریخ کے مظلوموں کے اسلام، مجاہد عرفاء کے اسلام، نیک سیرت عرفاء کے اسلام، الغرض خالص محمدی(ص) اسلام کا دفاع کرنے والے ہوں اور عوام ان افراد کو کہ جو سرمایہ دارانہ اسلام، مستکبرین کے اسلام، بے درد آسائش پسندوں کے اسلام، منافقین کے اسلام، راحت پسندوں کے اسلام، موقع کی انتظار میں رہنے والوں کے اسلام، الغرض امریکی اسلام کے حامی ہوں ، مسترد کردیں اور لوگوں کو ان کے بارے میں بتا دیں ‘‘۔