مقصد کا تعین اور پھر اس راستے کا تعین جسے اس مقصد کے حصول کے لئے طے کرنا ضروری ہے اور آخر میں اس راستے کو طے کرنے کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہے ان کی فراہمی ہر اس کام کے لئے یقینی طور پر ضروری ہے جس کو ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت انجام دینا مقصود ہو۔ حضرت امام خمینی(ره) کے بیانات، تحریروں اور اقدامات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ آپ کے پاس اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر غربت کے خاتمے اور معاشرتی عدالت کی برقراری کے لئے ایک واضح پروگرام تھا جس میں مقصد ، راستہ اور اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری وسائل مکمل طور پر معین تھے۔
بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ امام خمینی(ره)نے ہر طرح کے وسائل، طاقت ، اپنے کلام کا اثر اور اس بات کی اطلاع رکھنے کے باوجود کہ عوام آپ کے تمام فرامین پر عمل کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں کبھی بھی حقائق کا دامن نہیں چھوڑا اور آپ نے غربت کے خاتمے اور معاشرتی عدالت کی برقراری کے لئے ضروری عرصے کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ اسی لئے آپ ہمیشہ لوگوں سے یہ کہتے تھے کہ خالص اسلام کہ جو طبقاتی خلیج کے خاتمے اور عدالت کا مظہر سے ہمکنار ہونے کے لئے ابھی طویل راستہ طے کرنا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جس سفر کا آغاز کیا گیا ہے، ابھی ہم اس کی ابتداء میں ہیں اور یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوگا جب اسلام کو ہمہ پہلو بالادستی حاصل ہوجائے گی۔
اس انتباہ کے ساتھ ساتھ اس الٰہی نظام کے بانی نے اس نکتے کو بھی بھر پور انداز میں اجاگر کیا کہ اسلامی جمہوریہ کے حکام مڈل کلاس سے بالاتر نہیں ہونے چاہئیں ۔ آپ نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اور مستقبل کو مدنظر قرار دیتے ہوئے مجریہ اور مقننہ کے حکام کے انتخاب کے سلسلے میں عوام کی راہنمائی کی۔ اس سلسلے میں آپ نے فرمایا: ’’صدر مملکت اور پارلیمنٹ کے اراکین ایسے طبقے سے ہونے چاہئیں جس نے معاشرے کے مستضعفین اور ناداروں کی مظلومیت اور محرومیت کو محسوس کیا ہو اور جو ان کی آسائش کے درپے ہوں ان کا تعلق سرمایہ داروں ، زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والوں ، عیش کوشوں اور لذتوں اور شہوتوں میں غرق ہونے والوں سے نہیں ہونا چاہئے کہ جو خالی پیٹ لوگوں اور ناداروں کے درد اور محرومیت کی سختی و شدت کو محسوس ہی نہیں کر سکتے ہیں ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۵، ص ۱۳۸)
امام خمینی(ره) کے بیانات میں ان اقدامات کو انجام دینے کی ضرورت بڑے پیمانے پر بیان کی گئی ہے۔ امام خمینی(ره) کے نزدیک غربت کے خاتمے اور معاشرتی عدالت کی برقراری کے سلسلے میں جو بنیادی اقدامات انجام دئیے جانے ضروری ہیں ہم یہاں ان کی ایک فہرست پیش کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں ۔ یہ اقدامات درج ذیل ہیں :
ملکی اور غیر ملکی تجارت پر بااثر افراد اور امراء کی اجارہ داری کا خاتمہ ۔ (صحیفہ امام، ج۶، ص ۱۸۹)
دیہاتوں کی خوشحالی کی جانب توجہ۔ (صحیفہ امام، ج۵، ص ۴)
اسلامی حکمران کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے دولتمندوں کی آمدنی اور مفادات کو محدود کرنا۔ (صحیفہ امام، ج۱، ص ۲۱۹)
تجارت ، صنعت اور کاشتکاری میں عام لوگوں کو شامل کر کے بے روز گاری کا خاتمہ کرنا۔ (صحیفہ امام، ج ۴، ص ۱۹۴)
لوٹی ہوئی دولت دولتمندوں سے واپس لے کر محروموں کو ان کا حق ادا کرنا۔ (صحیفہ امام، ج ۹، ص ۲۹)
تمام جوانوں کی علمی اور عملی سطح بلند کرنے کا راستہ ہموار کرنا۔ (صحیفہ امام، ج 15، ص 147)
پارلیمنٹ کا ناداروں کے مفادات پیش نظر رکھ کر قوانین بنانا۔ (جہاد اکبر، امام (ره) ، ۱۳۶۱، ص ۲۲)
ناداروں کو سماجی ، معیشتی اور ثقافتی امتیازات دینا۔ (صحیفہ امام، ج ۱، ص ۱۳۱)
قائد ار قیادتی کونسل اس وقت اور آئندہ بھی خود کو اسلام، اسلامی جمہوریہ ، ناداروں اور مستضعفین کی خدمت کے لئے وقف کردے۔ (صحیفہ انقلاب، ص ۱۰)
عہدے سنبھالنے کے لئے محرومین، دوسروں سے مقدم ہیں ۔ (صحیفہ امام، ج ۹، ص ۱۹۹)
ناداروں اور ٹوٹے مکانوں میں رہنے والوں کے مفادات امراء اور دولتمند لوگوں کے مفادات پر مقدم ہیں ۔ (صحیفہ امام، ج۷، ص ۱۴۶)
عدلیہ کو ناداروں کا حامی ہونا چاہئے۔ (فریا د برائت، پیغام امام (ره) ، ۱۳۶۶، ص ۲۷)