امام خمینی (ره)کی تفسیر کا ایک اصول کہ جس نے آپ کی تفسیری اور تاویلی روش پر گہرے اثرات ڈالے ہیں ، اس بات کا اعتقاد ہے کہ نزول سے پہلے قرآن کے مختلف درجات ومراحل تھے۔ قرآن کے نزول کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کسی بلند مکان سے جسمانی طورپر نچلے مکان کی طرف آیا ہے۔ قرآن کے نزول کی طرف مختلف آیات میں اشارہ ہوا ہے جیسے { تَنْزِیلُ الْکِتابِ مِنَ اﷲِ الْعَزِیزِ الْحَکِیم}۔( سورہ زمر، آیت ؍۱۱)
نزول قرآن کے معنی یہ ہیں کہ قرآن بلند وبالا مطالب بلندترین درجہ سے عام سطح تک پہنچیں کہ جو ان الفاظ وکلمات کے سانچے میں ڈھلیں جن کو عام لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں تاکہ سامعین کے ادراک کی سطح پر ارتباط کا راستہ ہموار ہو۔ اس گفتگو کا مفہوم یہ ہے کہ نزول کے مرحلے سے پہلے کلام الٰہی کے طورپر حقیقت قرآن، موجودہ الفاظ ومعانی سے کہیں بالاتر تھی اس کے بعد تنزل کر کے نچلے مرحلے تک آئی اور محدود ہوئی اور آخرکار الفاظ کے قالب میں ڈھلی۔
خدائے تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں پر وسیع رحمت کی وجہ سے، اس کتاب شریف کو اپنے مقام قرب وقدس سے نازل فرمایا اور جہانوں اور عوالم کے مطابق اس کو تنزل بخشا یہاں تک کہ یہ کتاب اس عالم ظلمانی اور زندان طبیعت تک پہنچ کر الفاظ کے لباس میں اور حروف کی صورت میں پیش ہوئی۔ (آداب الصلاۃ، ص ۱۸۴)
وہ مراتب سات بطن یا ستر بطون ہیں ۔ ان سات بطون سے قرآن اپنی جگہ سے تنزل کر کے اس مقام تک پہنچا جہاں وہ انسانوں سے ہم کلام ہوسکا۔ورنہ اس بلند وبالا مرحلے پر تو انسانوں کیلئے قابل فہم نہیں تھا حتی کہ جس وقت پیغمبر(ص) کے قلب پر نازل ہوا تو ایک مرتبہ پھر تنزل کیا، اس طرح کا تنزل جس کی وجہ سے پیغمبر(ص) کے قلب میں داخل ہوا یہاں تک کہ پیغمبر(ص) کے قلب پہ تنزل کرنے کے بعد بھی ایک مقام اور نچلے مرحلے پر تنزل کیا اور لوگوں کیلئے قابل فہم قرار پایا۔( تفسیر سورۂ حمد ، ص ۱۶۵۵)
تفسیر قرآن میں اس نظرئیے کے خاص اثرات ولوازمات ہیں اگر ہمارا اس بات پر ایمان ہو کہ قرآن سات مراتب ودرجات کی طرف نزول کے بعد دوسروں کیلئے قابل فہم بنا تو حتمی طورپر یہ نتیجہ قبول کرنا پڑے گا کہ موجودہ مصحف، قرآن کریم کا وہ ساتواں مرتبہ اور نازلہ ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ اور اس کی عبارتیں ، قرآن کے تمام حقائق کی نشاندہی نہیں کرتیں اور ان الفاظ کے پیچھے وسیع معانی وپیغامات پنہان ہیں ۔ یہ بات درست ہے کہ الفاظ ان کلمات کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن معانی الفاظ کے لباس میں لپٹے ہوئے ہیں اور ان کی ایک الگ حقیقت ہے۔ اسی وجہ سے اپنے آپ کو قرآن کے ظاہر اور الفاظ کے اس لباس تک محدود نہیں کرلینا چاہیے۔
علامہ طباطبائی (ره) اس مطلب کو سمجھانے کیلئے ایک مثال ذکر کرتے ہیں اور اس طرح رقمطراز ہیں :
معارف الٰہیہ حقہ اس پانی کی طرح ہیں جو آسمان سے نازل ہوتا ہے تو فقط پانی ہوتا ہے بغیر اس کے کہ اس کی کیفیت وپیمانہ مقرر ہو لیکن جب یہی پانی زمین تک پہنچتا ہے اور سیلاب کی طرح زمین کی سطح پر پھیل جاتا ہے تو اس کی مختلف شکلیں اور مقداریں وجود میں آتی ہیں جیسے تنگ راستے، بلندترین آبشاریں ، وسیع وعریض دریا۔( المیزان، ج ۳، ص ۶۱۔)
معارف الٰہی کہ جو آسمان سے نازل ہوتے ہیں اسی پانی کی طرح ہیں جو مختلف وگوناگوں صورتیں اختیار کرتا ہے باوجودیکہ نازل ہونے سے پہلے وہ کسی خاص شکل وقالب میں نہ تھا اور نہ ہی اس کا کوئی خاص رنگ یا صورت تھی اور نہ ہی محدود تھا۔ اب اس کی شناخت ان مختلف صورتوں اور کیفیات کی وجہ سے نہیں ہے، معارف الٰہی بھی الفاظ وعبارات سے الگ حقیقت رکھتے ہیں ۔ البتہ یہی معارف الفاظ کے ظرف میں ڈالے گئے اور انہی الفاظ کے واسطے ووسیلے سے ان کی سطح کا تعین ہوتا ہے اور ان الفاظ کی محدودیت سے جدائی کے بعد یہ الٰہی کلام کی شکل وصورت اختیار کرتے ہیں ۔