قرآن کریم میں بھی احیاء اور اصلاح کے درمیان کوئی واضح حد فاصل نظر نہیں آتی ہے۔ قرآن میں توحید کی جانب دعوت کو بعض مقامات پر اصلاح کی دعوت کے طورپر ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ توحید کی دعوت دینے والوں کے پیشرو حضرت نوح (ع) کا قول قرآن کریم نے یوں نقل کیا ہے کہ:
’’میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میرے امکان میں ہو۔ میری توفیق صرف اﷲ سے وابستہ ہے اسی پر میرا اعتماد ہے اور اسی کی طرف میں توجہ کررہا ہوں ‘‘۔(سورۂ ہود، آیت؍ ۸۸)
اسی کے ساتھ قرآن انبیاء کرام(ع) کی دعوت کو زندگی عطا کرنے والی دعوت قرار دیتا ہے اور اس بارے میں وہ کہتا ہے: ’’اے ایمان والو! اﷲ اور رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دی جس میں تمہاری زندگی ہے‘‘۔(سورۂ انفال، آیت؍ ۲۴)
ایک اور مقام پر قرآن نے ایمان کو زندگی اور کفر کو موت سے تعبیر کیا ہے۔ ’’اور ہم نے اپنے پیغمبر کو شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور نہ شاعری اس کے شایان شان ہے یہ تو ایک نصیحت اور کھلا ہوا روشن قرآن ہے تاکہ اس کے ذریعے زندہ افراد کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں اور کفار پر حجت تمام ہوجائے‘‘۔(سورۂ یس، آیت؍ ۶۹)
ایک اور مقام پر نیک کام کو پاکیزہ زندگی کا پیش خیمہ قرار دیا گیا ہے: ’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے‘‘۔(سورۂ نحل، آیت؍ ۹۷)
اس مضمون کی آیات کے مجموعی جائزے سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ قرآن کے نزدیک صحیح زندگی ایسی زندگی ہے جو پاکیزہ ہو اور گناہوں میں لتھڑی ہوئی نہ ہو جبکہ بگاڑ، شرک اور تسلّط کو قبول کرنا معاشروں کی موت ہے۔ دعوت توحید معاشرے اور انسانوں کی زندگی کا سر چشمہ ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کے فرامین اور سیرت وکردار کے جائزے سے بھی ہم مذکورہ نتیجے تک پہنچتے ہیں ۔ مثلاً، نہج البلاغہ میں دوسروں کا تسلّط قبول کرنے کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ امیر المؤمنین (ع) نے اپنی ایک انقلابی تقریر میں اپنے ساتھیوں کو جہاد اور پانی پر سے دشمن کا قبضہ ختم کرانے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: ’’تمہارا ان سے دب جانا جیتے جی موت ہے اور غالب آکر مرنا بھی جینے کے برابر ہے‘‘۔(خورشید بی غروب نہج البلاغہ، شمارہ ۸۱۱)
سید الشہداء (ع) اپنے قیام کا سرچشمہ پیغمبر اکرم (ص) کی امت کی اصلاح کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میری تحریک واقدام کا مقصد اپنے جدّ امجد (ص) کی امت کی اصلاح ہے‘‘۔(بحار الانوار، ج ۴۴، ص ۳۲۹)
امام خمینی (ره) نے اپنے سیاسی الٰہی وصیت نامے میں قرآن کے احیاء کے ضمن میں یہی حقیقت بیان کی ہے کہ قرآنی حقائق زندہ وجاوید ہیں لیکن بشر کا ادراک قرآنی حقائق کے بارے مردہ ہوسکتا ہے اور قرآن کو زندہ کرنے کا ایک مصداق یہی ہے کہ قرآن کو مردوں اور قبرستان سے چھٹکارا دلایا جائے۔ امام خمینی (ره) فرماتے ہیں :
’’ہمیں اور اسلام وقرآن کی پابند ہماری قوم کو یہ فخر حاصل ہے کہ ہم ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جس نے قرآن کے حقائق کو جو کہ مسلمانوں بلکہ بشر کے درمیان اتحاد کے فرامین سے لبریز ہیں قبروں اور قبرستانوں سے نجات دلا کر اسے ایسے ضابطہ حیات کے طور پیش کیا کہ جس بشر کو اس کی عقل، ہاتھ، پاؤں اور دل پر باندھی گئی زنجیروں سے جو کہ اسے نابودی، غلامی اور طاغوتوں (سامراج) کی بندگی کی طرف کھینچ کرلے جاتی ہیں نجات دلاتا ہے‘‘۔
امام خمینی (ره) کے اس کلام کے پیش نظر قرآن اور دین ثابت اور پائیدار حقائق پر مشتمل ہیں کہ جو زندہ جاوید ہیں اور کبھی نہیں مرسکتے بلکہ قرآن، دین اور دینی اقدار کے بارے میں لوگوں کا انداز فکر موت کا شکار ہوتا ہے۔