حضرت امام خمینی (ره)نے ظلم کے مقابلے اور عدالت کی برقراری کے حوالے سے جن دینی عقائد کو زندہ وپائندہ کیا ان میں ’’جہاد‘‘ کے مفہوم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ جہاد کا مفہوم امام خمینی (ره) کے نزدیک ایک بلند اور اہم مقام کا حامل ہے۔ آپ معتقد تھے کہ عقیدۂ جہاد کی موت ہی ہمارے اسلامی معاشرے کی تمام مشکلات کا سبب ہے۔ اگر راہ خدا میں جہاد کرنے کو بھلا دیا جائے اور جہاد کا عقیدہ معاشرے سے کوچ کرجائے تو پورا معاشرہ بدبختی اور رسوائی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اسلامی معاشروں پر عالمی سامراج اور ظالموں کی حکومت کا سبب یہی ہے کہ ان معاشروں میں جذبہ جہاد ختم ہوچکا ہے۔
عقیدۂ جہاد کی موت کا نتیجہ سوائے سنّاٹے اور جذبوں کے ٹھنڈا پڑجانے کے اور کچھ نہیں ۔ خاموشی اختیار کرنے اور جہاد سے روگردانی کرنے کا نتیجہ سوائے تباہی، ضعف، ذلت ورسوائی اور زوال کے کچھ نہیں ۔ عقیدۂ جہاد فی سبیل اﷲ کی موت اور مکمل سناٹا، ایمان کے فقدان یا اس کی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی (ره) نے عقیدۂ جہاد کو زندہ کرنے کیلئے ’’خاموشی‘‘ اور خاموش رہنے والے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے والے انسانوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔
آپ نے ۱۰؍۱؍۱۳۴۱ ھ ش (۱۲ فروری ۱۹۶۳ ء) میں علمائے دین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’وائے ہو اس ملک پر، وائے اس برسراقتدار ٹولے پر، افسوس ہم پر، وائے ہو ان خاموشی اختیار کرلینے والے علماء پر، افسوس اس خاموش نجف، قم، تہران اور مشہد پر! یہ موت برساتا ہوا سناٹا سبب بنا ہے کہ ہماری یہ مملکت اور ہماری ناموس ان بہائیوں کے ذریعے سے اسرائیل کے قدموں تلے پامال ہوجائے‘‘۔۶۱؎
امام امت (ره) نے جہاد فی سبیل اﷲ کو زندہ کرنے کیلئے خاموشی اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی مذمت کرنے کے علاوہ جہاد فی سبیل اﷲ کو ضروری، بنیادی، تمام نیکیوں اور بھلائیوں کا سرچشمہ اور ایسی قدر وقیمت کا حامل قرار دیا کہ جس سے بالاتر قدر وقیمت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
امام امت (ره) نے اپنے آباء واجداد کی پیروی کرتے ہوئے اس مسئلے کی بہت تاکید فرمائی یہاں تک کہ اپنے پہلے خط سے لے کر آخری ارشادات تک اپنی زندگی میں سات سے زیادہ مرتبہ خصوصاً حساس موقعوں پر اس مسئلے کی تاکید کرتے ہوئے ہے۔
درحقیقت جہاد اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں آپ (ره) کی سیاسی فکر میں اس آیت کو کلیدی حیثیت حاصل تھی۔ مثلاً، آپ ایک مقام پر فرماتے ہیں : ’’اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں فقط ایک نصیحت کرتا ہوں ۔ خدا نصیحت کرنے والا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) ذریعہ ہیں اور قوم کو نصیحت کی جا رہی ہے۔ میری فقط ایک ہی نصیحت ہے زیادہ نہیں ۔ {انما أعظکم بواحدۃ أن تقوموا ﷲ} وہ نصیحت یہ ہے کہ اﷲ کیلئے کھڑے ہوجاؤ۔۔۔ یہ کسی ایک زمان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی نصیحت ہمیشہ کیلئے ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۷، ص ۳۷)
جہاد کے احیاء کے حوالے سے ایک اور پہلو جسے آپ (ره) نے مدنظر قرار دیا یہ تھا کہ آپ نے جہاد کو ایک قرآنی مسئلہ قرار دیا۔ آپ کے نزدیک قرآن اور اسلام حرکت، اٹھ کھڑے ہونے، بیداری، جہاد اور معاشرے میں عدالت کی برقراری اور عظیم انسانی اقدار کو معرض وجود میں لانے والی سعی وکوشش کا حکم دینے والا مکتب ہے: ’’اسلام حرکت وجنبش کا مکتب ہے۔ قرآن کریم حرکت، طبیعیات سے غیب کی طرف مادیات سے معنویات کی جانب حرکت اور عادل حکومت کا قیام عمل میں لانے کیلئے حرکت میں لانے کی کتاب ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۴، ص ۵۲۰)
امام امت (ره) جہاد اور اٹھ کھڑے ہونے کو ایک جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی، الٰہی، مقدس، ضروری، ناگزیر وقتی اور عارضی نہیں بلکہ دائمی، ابدی، بلند پایہ اور مقدس فریضہ جانتے ہیں ۔ جہاد فی سبیل اﷲ ایک کمال ہے اور اس سلسلے میں بزدلی کا مظاہرہ کرنا ایک نقص اور عیب ہے جس کا سرچشمہ ایمان کی کمزوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو جہاد فی سبیل اﷲ کا عقیدہ نہ رکھتا ہو وہ ناقص اور انسانی امور کی انجام دہی سے قاصر ہے۔ مجموعی طورپر حضرت امام خمینی (ره) کی سیرت اور سیاسی نظریات کی بنیاد جہاد فی سبیل اﷲ پر استوار ہے۔ ایک جہاد اپنے نفس کے ساتھ کیا جاتا ہے جو جہاد اکبر کہلاتا ہے۔ دوسرا، دوسروں کے ساتھ کیا جاتا ہے جو جہاد اصغر کہا جاتا ہے۔ یہ ایسا جہاد ہے جس کی ماہیت اور حقیقت الٰہی اور خدائی ہونے سے بنتی ہے‘‘۔(آئین مبارزہ در اندیشہ امام خمینی، فصل نامہ ۱۵ خرداد، شمارہ ۲۴، سال ۵، ص ۱۰ و ۴۴، جمشیدی)