قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ایمان کے بعد عمل صالح کا تذکرہ ہے: ’’ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ‘‘ (سورۂ بقرہ، ۲؍ ۲۷۷) ایمان اور عمل کو ہمیشہ دو ایسے عامل وسبب کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے جن میں جدائی نہیں ہوتی۔
بعض آیات میں عمل کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے خدا وند عالم کا ارشاد ہے: ’’وَأَنْ لَیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلاَّ مَاسَعَیٰ وَأَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرَیٰ ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَائَ الْأَوْفَیٰ‘‘ (سورۂ نجم، ۵۳؍ ۳۹، ۴۰، ۴۱ ) بے شک انسان نے جو کچھ عمل انجام دیا ہے اس کیلئے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے اور وہ عنقریب اپنے کئے ہوئے سارے اعمال کو دیکھے گا پھر اس کی پوری جزا پائے گا۔
اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد ہے:’’ وَکُلّ انسان الْزَمنٰہ طائِرَہُ فِيْ عُنُقِہ‘‘۔(سورۂ اسراء، ۱۷ ؍ ۱۳ )
اس آیت کی تفسیر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہاں پر ’’ طائر ‘‘ سے مراد انسان کا عمل ہے اور بنیادی طور پر انسان اپنے اختیار سے جو اچھے اور برے اعمال انجام دیتا ہے انہیں کی وجہ سے اپنے لئے سعادت وشقاوت کے اسباب فراہم کرتا ہے ۔ اسی لئے امام خمینی(ره) فرماتے ہیں :
نفس کے اندر ہر اچھے اور برے عمل کی تاثیر ہوتی ہے۔( شرح چہل حدیث، ص ۳۲۴ )
آپ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : انسان کے اوپر اچھائی یا برائی جو کچھ آتی ہے وہ خود اسی کی وجہ سے آتی ہے جو چیز انسان کو انسانیت کے اعلیٰ مراتب تک پہنچاتی ہے وہ انسان کی خود اپنی کوشش ہے اور جو چیز انسان کو دنیا و آخرت میں تباہی کے گھاٹ اتار دیتی ہے وہ خود انسان اور اس کے اعمال ہیں۔ (صحیفہ امام، ج ۱۵، ص ۶۹)
اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ انسان کا عمل ہی دنیا و آخرت میں اس کی تقدیر و قسمت کو معین کرتا ہے لہٰذا انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایسے اعمال و کردار کی طرف توجہ رکھے اور سارے مربی افراد کا بھی یہ فریضہ ہے کہ خود اپنے اور جن کی تربیت کر رہے ہیں ان کے اعمال و کردار پر توجہ رکھیں اور جو کمزوریاں ہوں انہیں دور کریں صحیح عمل کی طرف ہدایت کریں۔ انفرادی صورت میں بھی عمل کی بہت اہمیت ہے جب کوئی شخص امور تربیت کا ذمہ دار ہو اور اجتماعی صورت میں بھی اس کی اہمیت ہے جب حکومت کے ذمہ دار افراد پورے معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہوں دونوں صورتوں میں یہ جلوہ نما ہے۔
امام خمینی(ره)اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
آپ حضرات ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کے اعمال صالح ہوں، آپ کا قیام خدا کیلئے ہو اور آپ کے اعمال خدا کیلئے ہوں ۔(صحیفہ امام، ج ۶، ص ۱۰۶)
تمام انبیاء(ع) کی کوشش شروع سے آخر تک یہی رہی ہے کہ اس موجود کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دیں اور اس کی راہ پر لگا دیں وہ لوگ صرف کہتے ہی نہیں تھے بلکہ وہ حضرات تمام اعمال و افعال اور اقوال میں رہنما و نمونہ تھے تاکہ اس موجود کو اس کمال تک پہنچادیں جس کے لائق وہ ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۷)