انسان کے متعدد خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے کہ وہ الٰہی پاکیزہ فطرت کا حامل ہوتا ہے سارے انسان اسی فطرت پر خلق کئے گئے ہیں جیسا کہ قرآن کریم کی آیات بھی اس کی طرف اشارہ کر رہی ہیں :
فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَۃَ اﷲِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لاَتَبْدِیلَ لِخَلْقِ اﷲِ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ ۔۔۔ (سورۂ روم، ۳۰ ؍ ۳۳ )
امام خمینی(ره) جن کی گفتار وکردار بھی قرآن کی نورانی آیات کے مطابق تھی اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
ایسا نہیں ہے کہ انسان شروع ہی سے برا دنیا میں آیا ہے وہ شروع سے اچھی فطرت کے ساتھ دنیا میں آیا ہے وہ فطرت الٰہی کے ساتھ دنیا میں آیا ہے: ’’کل مولاد یولد علی الفطرۃ‘‘یہ وہی فطرت انسانیت، فطرت صراط مستقیم، فطرت اسلام اور فطرت موجود ہے۔( صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۳۳)
سب لوگوں کی فطرت، نورانیت پر ہے، آپ کی فطرت، نورانی فطرت ہے، توحیدی فطرت ہے۔( صحیفہ امام، ج ۱۲، ص ۳۵۸)
سارے انسان صحیح فطرت کے ساتھ موجود ومخلوق ہوتے ہیں ۔( صحیفہ امام، ج ۱۱، ص ۲۵۷)
اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ انسان، الٰہی فطرت کا ہوتا ہے لہٰذا اس کی تعلیم وتربیت کی بنیاد اس طرح ہونی چاہئے کہ معرفت ورجحان کے لحاظ سے خدا کے بارے میں ضروری بصیرت و معرفت رکھتا ہو اور عشق الٰہی کے تمام مقدمات کو فراہم ہوں ۔ در حقیقت جو تربیت، فطرت کے ہم آہنگ ہوتی ہے وہ خدا کے ذریعے انجام پاتی ہے اسی لئے اس امر کے متحقق ہونے کیلئے انبیاء مبعوث کئے گئے ہیں تاکہ انسانوں کو راستہ دکھائیں اور انہیں اعمال صالح انجام دینے کی دعوت دیں ۔ سلسلۂ نبوت وامامت کے خاتمے کے بعد تمام مربی افراد، والدین، معلمین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حضرات کی راہ پر چلیں اور لوگوں کو ایسی صحیح تربیت کریں جو انسانی فطرت کے مطابق ہو۔
درحقیقت ’’ توحید ربوبی ‘‘ دین اسلام کی اعتقادی عمارت کیلئے سنگ بنیاد کا کام کرتی ہے اور اسلامی معاشرے میں تربیت کا مقصد شمار ہوتی ہے ۔ امام خمینی(ره) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
آپ تمام معلمین اور یونیورسٹی کے طلاب کی یہ ذمہ داری ہے کہ انبیاء نے جس راہ کو معین کیا ہے اسی راہ کو طے کریں خدا کی راہ یہی ہے۔( صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۱۷۴)
یہ بچے جب شروع میں تعلیم وتربیت کے مرکز میں داخل ہوتے ہیں تو بالکل صحیح وسالم نفوس کے ساتھ آتے ہیں انہیں جو کچھ بتایا جا تا ہے ہر قسم کی تربیت اور ہر چیز کو تسلیم کرتے ہیں جب یہ نونہال بچے ابتدائی مدارس میں داخل ہوتے ہیں تو وہ مدرسوں میں الٰہی امانت ہوتے ہیں پھر یہ امانت دوسری جگہ جاتی ہے دوسرے معلمین کے سپرد کی جاتی ہے پھر یہ بچے رشد و ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی مراکز اور یونیورسٹی میں پہنچتے ہیں ۔ اگر شروع ہی سے ان بچوں کی ایسی تربیت کی جائے جس میں انحراف وگمراہی نہ ہو ایسی تربیت جو انسان کے مناسب ہو، انسان کی پاکیزہ فطرت کے مناسب ہو ۔۔۔ بعد میں یہ بچے معاشرے کے سپرد کئے جاتے ہیں پھر معاشرے کی تقدیر و قسمت انہیں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اس وقت ملک کو نورانی وانسانی بنا دیتے ہیں اور پورے ملک کی فطرت الٰہی کے مطابق تربیت کرتے ہیں ۔( صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۳۲ )
آپ حضرات جو مربی ہیں یا اپنی اولاد کی تربیت کرنا چاہتے ہیں آپ سب کو اس آیت شریفہ پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے: ’’ إقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ‘‘ (سورۂ علق، ۹۶ ؍ ۱) آپ تعلیم دینا چاہتے ہوں یا تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہوں جب بھی قرائت کریں وہ اسم رب کے ساتھ ہو، خدا کی طرف توجہ کے ساتھ ہو، الٰہی تربیت کے ساتھ۔( صحیفہ امام، ج ۸، ص ۱۱۸)