اس کے باوجود کہ امام خمینی(ره) نے دوسرے فقہا ئے کرام کی نسبت ولایت کے دائرہ اختیار کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے ولایت مطلقہ اور ولایت عامہ کے الفاظ بہت کم استعمال کئے ہیں ۔ آپ (ره) کی تمام فقہی ، اصولی، استدلالی اور فتوائی کتب و آثار میں ولایت عامہ اور ولایت مطلقہ کے الفاظ صرف مندرجہ ذیل مقامات پر استعمال کئے گئے ہیں اور دیگر مقامات پر ولایت کی قلمرو کو مخصوص نام یا خاص اصطلاح نہیں دی گئی ہے:
۱۔ مذہب حقہ کی رو سے پیغمبر اکرم (ص) کے بعد سید الوصیین حضرت امیر المومنین علی (ع) اور آپ (ص) کی اولاد معصومین(ع) یکے بعد دیگرے غیبت (امام زمانہ ) تک ائمہ اور والیان امر ہیں وہ ولی امر ہیں اور وہی ولایت عامہ اور خلافت کلیہ الٰہیہ جو حضور اکرم (ص) کو حاصل تھی انہیں بھی حاصل ہے۔ (کتاب البیع، امام خمینی، ج۲، ص ۴۶۴(
۲۔ امام خمینی(ره) حدیث شریف ’’الفقہاء أمناء الرسل ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فقہا ان خصوصیات میں (حدود کے نفاذ ، ظلم و جارحیت روکنے، اسلام کے پامال ہونے اور سنت و احکام اسلام کو پامال ہونے سے بچانے وغیرہ معاملات میں ) انبیائے کرام(ص) کے امانتدار اور اسلام کے قلعے ہیں یہ آخری عبارت ولایت مطلقہ ہے۔
۳۔ فقیہ کی ولایت مطلقہ کے ثبوت کے بعد رکاوٹوں کی اقسام یقینا بہت زیادہ ہیں ۔ (کتاب البیع، امام خمینی، ص ۴۷۳ و ۵۱۴)
۴۔ تمام پیغمبروں (ص)کو مخلوقات پر ولایت عامہ حاصل ہے۔ ) کتاب البیع، امام خمینی، ص۴۸۳)
۵۔ امام خمینی(ره) نے اس بحث کے ضمن میں کہ بعض اخبار و احادیث کی رو سے دنیا، کرہ ارض اور اس میں پائی جانے والی چیزیں سب امام (ع) کی ہیں ، لکھا ہے: ’’ زیادہ تر امکانات یہ ہیں کہ خداوند عالم نے ان (ائمہ ) کے لئے دنیا اور آخرت (کے امور ) میں تصرف کا حق وضع کیا ہے لہذا وہ (ائمہ) تمام اشیا میں تصرف اور ملکیت کا حق رکھتے ہیں اگرچہ مال جائداد ان کے مالکوں کے ہیں تمام مخلوقات پر حاصل یہ ولایت ولایت عامہ کلیہ ہے اور یہ ولایت تکوینی نیز ان (ائمہ ) کی طرف سے فقہا کے لئے ثابت ولایت سلطانیہ سے علیحدہ ہے۔ اس طرح ائمہ کو معاملات کے حلال اور حرام قرار دینے کا حق حاصل ہے۔۔۔‘‘۔ (کتاب البیع، امام خمینی، ج۳، ص ۱۱ و ۱۲)
بنا بر این امام خمینی(ره) اس ولایت کو جسے دوسرے فقہائے کرام نے ولایت مطلقہ کا نام دیا ہے ، ولایت عامہ ، ولایت عامہ کلیہ اور خلافت کلیہ الٰہیہ کے عنوانات سے یاد کیا ہے۔ یہ معصومین کے دائرہ اختیار پر مشتمل ولایت ہے جو آپ (ره) کی فقہی اور اصولی کتب میں عادل فقہا کی ولایت سے اعلیٰ قرار دی گئی ہے۔ آپ (ره) نے صرف دو مقامات پر اس ولایت کو جسے دیگر مشہور فقہا نے ولایت عامہ کا نام دیا ولایت مطلقہ سے تعبیر کیا ہے اور ولایت مطلقہ سے آپ(ره) کی مراد اس کے محدود نفاذ کے مواقع میں ، وہی ہے جس کی کئی بار آپ (ره) نے وضاحت کی ہے: ’’امور مملکت اور اسلامی معاشرے کے مفادات کی رعایت کے ساتھ عام مسائل میں ولایت ‘‘۔ آپ (ره) نے فقہا کے ہاں پائے جانے والے مشہور مفہوم کے ساتھ کبھی ولایت عامہ کی اصطلاح استعمال نہیں کی ہے۔