امام خمینی(ره) اور مہاتما گاندھی دونوں اپنے اپنے ملک کے روحانی رہنما ہیں ۔ دونوں نے اپنے ملکوں کو سامراج کے چنگل سے نجات دلا کر انہیں استقلال عطا کیا اس کے علاوہ دونوں رہنماوں نے اپنی اپنی قوموں کو خود اعتمادی سے مالا مال کرتے ہوئے ان کے ذہنوں سے اغیار کا مقابلہ کرنے کے بارے میں پائے جانے والے خیالی خوف و ہراس کے طلسم کو توڑڈالا۔ لیکن دونوں رہنماؤں کے عمل میں فرق پایا جاتا ہے:
گاندھی نے منفی مقابلے کے ذریعے ہندوستان کو آزادی دلائی اور البرٹ شوایٹرز کے بقول: ’’ہندوستان کے قدیم مفکروں کی نظر میں آہنسا (جانوروں کو تکلیف نہ پہنچانا)، ترک دنیا کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس اصول کو کسی قسم کے عملی مقصد کے حصول کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دنیا کی آلودگی سے بچنے کا ایک روحانی جذبہ اور دینی عمل ہے، لیکن گاندھی نے آہنسا سے زندگی کے حالات بدلنے کے لئے کام لیا۔؛ دنیوی معاملات پر لاگو ہونے کے بعد آہنسا اپنی پہلی حیثیت کھو دیتی ہے اور وہ اس حیثیت پر قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔
امام خمینی(ره) اور مہاتما گاندھی کی تحریکوں میں طریقہ کار اور کیفیت کے دو بنیادی نقطہ نگاہ سے فرق پایا جاتا ہے:
۱۔ گاندھی نے آہنسا کے منفی اصول کی اصل حیثیت کو تبدیل کرتے ہوئے اسے مثبت رخ دیا جبکہ امام خمینی(ره) نے اسلام کے فراموش شدہ اقدار کو زندہ کرتے ہوئے سچے اسلام کے چہرے سے غفلت و نسیان کی دھول جھاڑ دی اور اس کے حقیقی جلوے کو اجاگر کیا۔
’’اگر اسلام اور اسلامی جمہوریہ جو ابھی تازہ وجود میں آیا ہے منحرف ہوگیا اور چوٹ کھا کے ہار جائے تو اسلام ہمیشہ کیلئے فراموشی کے حوالے ہوجائے گا اور درباری اسلام اس کی جگہ لے لے گا۔ ‘‘ (صحیفہ امام، ج ۱۸، ص ۵) دوسرے الفاظ میں امام خمینی(ره) نے اسلام کی اثباتی روش کو مزید مثبت انداز میں پیش کیا۔
۲۔ گاندھی کی منفی جدو جہد میں تقدس اور دین کے عناصر نہیں پائے جاتے تھے بلکہ یہ بوڑھے استعمار برطانیہ سے مقابلے کی تحریک میں آزمائی جانے والی جین مت کی ایک نئی روش اور نیا تجربہ تھا۔ لیکن امام خمینی(ره) کی تحریک دینی رنگ لئے ہوئے تھی جس کی رو سے جدو جہد اور ثابت قدمی ایک قسم کی دینی ذمہ داری شمار ہوتی تھی اور جو اس راہ میں جان نثاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان بحق ہوتے وہ شہید کہلاتے تھے اور ان کو صدر اسلام کے شہداء کا درجہ ملتا تھا۔ ’’ظلم وستم کے خلاف ثابت قدم رہنا مذہبی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے۔ ‘‘ ( صحیفہ امام، ج ۵، ص ۱۸۸)
مذکورہ دو خصوصیات کی بنا پر اسلامی معاشرے نے نہ صرف اپنی اجتماعی خودی دوبارہ حاصل کی بلکہ اسے ناقابل بیان معاشرتی اور سیاسی ترقی ملی۔ وہ اڑھائی ہزار سالہ فرسودہ شاہی نظام کو نابود کر کے اس کی جگہ نئی اسلامی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔