رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی مسلمانوں کے اندرونی اور بیرونی امور سے متعلق روش سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی ایک اہم ذمہ داری سیاسی جد وجہد تھے۔
حضرت علی اور امام حسین علیہما السلام کی شہادت اور دوسرے اماموں علہیم السلام کا قید اور نظر بند کیا جانا اور زہر دیا جانا، یہ سب ظالم و ستمگر افراد کے خلاف شیعوں کی سیاسی جد وجہد کی وجہ سے تھا۔ مختصر یہ کہ ظلم وستم کے خلاف ثابت قدم رہنا، مذہبی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے۔
صحیفہ امام،ج ۵، ص ۱۸۸
آپ کس نبی کو جانتے ہیں جس نے اجتماعی امور میں شرکت نہیں کی ہو؟ بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہو اور پیشرو نہ رہا ہو؟
موسی علیہ السلام عصا لے کر فرعون کی طرف چل دئیے، بازار میں آ کر مسئلے بیان نہیں کرتے بلکہ فرعون کی طرف چل دئیے، خدا ہی نے انہیں فرعون کے پاس بھیجا کہ جاؤ اسے دعوت دو اور نرم لہجہ میں دعوت دو اور جب نرم لہجہ میں پیار محبت سے کام نہ چلے تو پھر قیام کرنا۔
یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مولوی کو سیاسی امور سے کیا مطلب؟! وہ بتائیں کہ کس دن پیغمبر اسلام [ص] سیاسی امور سے دور رہے؟
آپ نے حکومت قائم کی اور اسلام کی مخالفت اور لوگوں پر ظلم وستم کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔
وہ [سامراجی عناصر] اس پروپیگنڈے کے ذریعے کہ فوجی وردی عدالت کے منافی ہے، ہمیں الگ تھلگ کرنا چاہتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام بھی سپاہیوں کی وردی پہنتے تھے تو کیا یہ عدالت کے منافی تھا؟
کیا حضرت امام حسین علیہ السلام سپاہیوں کی وردی نہیں پہنتے تھے؟
ان لوگوں نے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈے کے ذریعہ ہمیں علیحدہ کردیا تھا اور یہ ہمارے دماغوں کو اس قدر بھر چکے تھے کہ ہمیں یقین آگیا تھا کہ ہمیں سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ انبیاء[ع] کی پہلی تعلیم سیاست میں حصہ لینا ہے، ان لوگوں کے ساتھ مسلح جنگ کرنا، جو انسانیت سے دور ہیں اور ملت کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں، انبیاء کا پہلا کام تھا۔
صحیفہ امام،ج ۱۵، ص ۲۱۳