خطاب

حکومت وسیاست

استعماری طاقتوں کی سازش اور اس کے برے نتیجے

ایک اہم سازش جو حالیہ صدی خاص کر حالیہ عشروں اور انقلاب کی کامیابی کے بعد آشکارا طور نظر آتی ہے، استعماری طاقتوں کی ملتوں خاص کر جاں نثار ایرانی ملت کو اسلام سے مایوس کرنے پر مبنی وسیع پروپیگنڈہ ہے۔ بعض اوقات جہالت اور صراحت کہا جاتا ہے کہ اسلامی احکام چودہ سو سال پہلے کے ہیں، یہ عصر حاضر میں ملکوں کو نہیں چلا سکتے یا یہ کہ اسلام ایک دقیانوسی دین ہے جو ہر نئی چیز وتمدن کا مخالف ہے اور عصر حاضر میں ممالک عالمی تمدن اور اس کے آثار سے جدا نہیں ہوسکتے، اس طرح کا احمقانہ پروپیگنڈہ، بعض اوقات نقصان دہ اور شیطانی طریقے سے اس طرح اسلام کی طرف داری کرتے ہیں کہ کہتے ہیں: اسلام اور دوسرے الٰہی ادیان کا سروکار معنویت اور تہذیب نفس، نیز دنیاوی مقامات سے اجتناب، ترک دنیا اور عبادت ودعا میں مشغول رہنے کی دعوت ہے کہ جس سے انسان خدا سے قریب اور دنیا سے دور ہوجاتا ہے جبکہ حکومت وسیاست اس عظیم اور معنوی مقصد کے منافی ہیں، کیونکہ سب چیزیں دنیا داری کیلئے ہیں جو کہ عظیم المرتبت انبیاء کے مسلک کے خلاف ہے، افسوس کہ دوسرے طریقہ کی تبلیغ اسلام سے بے خبر دیندار اور سادہ لوح افراد پر اس طرح اثر انداز ہوئی کہ وہ حکومت وسیاست میں حصہ لینے کو ایک گناہ سمجھنے لگے اور شاید بعض اب بھی جانتے ہوں، یہ وہ عظیم سانحہ ہے کہ اسلام جس کا شکار ہوگیا۔

پہلے گروہ کے بارے میں کہنا چاہیے کہ یہ لوگ حکومت وقانون اور سیاست سے یا مطلع نہیں ہیں یا کسی غرض کی خاطر انجان بنے ہوئے ہیں کیونکہ عدل وانصاف کے دائرہ میں قانون کا نفاذ اور ستم گر وظالم وجابر حکومتوں کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا، عدل وانصاف کا پھیلانا، استعمار واستثمار اور استعباد کی روک تھام، معاشرہ کو فساد وتباہی سے بچانے کیلئے حد وقصاص اور سزائیں دینا، سیاست اور  معاشرہ کو عدل وانصاف کے راستہ پر گامزن کرنا وغیرہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جو اجتماعی زندگی اور تاریخ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانی ہوجائیں، یہ دعوی اس کے مانند ہے کہ کہا جائے کہ عقلی اور ریاضی کے اصول وقواعد موجودہ صدی میں بدل دئیے جائیں اور ان کی جگہ دوسرے اصول وقواعد لائے جائیں، اگر ابتدائے خلقت میں اجتماعی عدالت قائم ہو اور ظلم وستم اور قتل وغارت گری کا سد باب کیا جائے تو آج کا زمانہ چونکہ ایٹم کا زمانہ ہے، لہذا وہ طریقہ پرانا ہوچکا ہے، یہ دعویٰ کہ اسلام نئی چیزوں کا مخالف ہے، محض ایک جاہلانہ تہمت ہے، کیونکہ اگر آثار تمدن اور نئی چیزوں سے مراد ایجادات اور ترقی یافتہ چیزوں کی تیاری ہے جو انسان کی ترقی اور اس کے تمدن میں موثر ہیں تو اسلام نیز کسی بھی توحیدی دین نے اس کی نہ تومخالفت کی ہے اور نہ ہی کرے گا، بلکہ علم وصنعت کی اسلام اور قرآن مجید نے حمایت کی ہے اور اگر تمدن ونئی چیزوں سے مراد وہ ہے جو بعض پیشہ ور روشن خیال افراد کہتے ہیں کہ تمام منکرات اور فحش کاموں حتی ہم جنس بازی وغیرہ کی مکمل آزادی ہو تو اس کی تمام  آسمانی ادیان ومذاہب اور عقلاء مخالفت کرتے ہیں اگرچہ مغربی اور مشرقی افراد اندھی تقلید کرتے ہوئے اس کی ترویج کرتے ہیں۔ البتہ دوسرا گروہ کہ جس کی سازش نقصان دہ ہے اور جو اسلام کو حکومت وسیاست سے جدا سمجھتا ہے ان جاہل ونادان لوگوں کو بتایا جائے کہ قرآن مجید اور احادیث پیغمبر اسلام  ﷺ میں جتنے احکام حکومت وسیاست کے سلسلہ میں ہیں دوسری چیزوں کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ اسلام کے بہت سے عبادتی احکام سیاسی عبادتی ہیں کہ جن سے غفلت کی وجہ سے یہ مصیبت سامنے آئی ہے، پیغمبر اسلام  ﷺ نے دوسری حکومتوں کی طرح حکومت تشکیل دی۔ البتہ اجتماعی عدالت کو وسعت دینے کی غرض سے اسلام کے پہلے خلفا وسیع حکومتیں رکھتے تھے۔ حضرت علی بن ابی طالب (ع)  کی حکومت کا اسی محرک کے تحت اور وسیع ہونا تاریخ میں روز روشن کی طرح واضح  ہے اس کے بعد حکومت دھیرے دھیرے صرف نام کی اسلامی رہ گئی اور آج بھی اسلام اور رسول خدا  (ص) کی پیرو اسلامی حکومتوں کے دعوی دار بہت ہیں۔

البتہ مجھے امید ہے کہ صاحبان قلم اور ماہرین سماجیات، نیز مورخین مسلمانوں کو اس غلط فہمی سے نجات دیں گے اور جو کچھ کہا گیا نیز کہا جا رہا ہے کہ انبیاء کا کام صرف معنویت تک ہوتا ہے، حکومت اور دنیاداری سے ان کا کوئی تعلق نہیں، انبیاء و اولیاء  (ع)  اور بڑے لوگ اس سے گریز کرتے ہیں اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، یہ غلط فہمی قابل افسوس ہے کہ اس کا نتیجہ اسلامی ملت کی تباہی وبربادی اور استعماری طاقتوں کیلئے راستہ ہموار کرنا ہے، کیونکہ جس چیز کو مسترد کیا گیا ہے وہ شیطانی اور ڈکٹیٹر وظالمانہ حکومت ہے کہ جس کا مقصد لوگوں پر تسلط جمانا، لوگوں میں غلط ومنحرف فکر پیدا کرنا اور دنیاداری پیش کرنا ہے کہ جس سے ممانعت کی گئی ہے اور اس کا مقصد مال ودولت کا جمع کرنا قدرت حاصل کرنا اور خود غرضی ہے، دنیا ہے کہ جو انسان کو خدائے بر حق سے غافل کرتی ہے۔ البتہ بر حق حکومت کا مقصد غریبوں وناتواں افراد کی مدد اور ظلم وجور کا روکنا نیز اجتماعی طورپر عدل وانصاف قائم کرنا ہوتا ہے، یہ وہی چیز ہے کہ جس کیلئے جناب سلیمان بن داود پیغمبر اسلام  ﷺ اور آپ  ؐ کے اوصیاء  (ع) نے پوری کوشش کیں، یہ اہم واجبات میں سے ہے اور اس کا قائم کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔ پس صحیح سیاست کہ جو ان حکومتوں میں رہی لازمی امور میں سے ہے۔

صحیفہ امام، ج ۲۱، ص ۴۰۴

ای میل کریں