انسان پر خیر و شر میں نازل ہونی والی رحمتیں اور عذاب و مصیبتیں، خود انسان کی اپنی وجہ سے ہیں۔ یہ انسان کی اپنی جدوجہد اور کوشش ہے کہ جو انسان کو انسانیت کے اعلی درجات تک پہنچاتی ہے جبکہ دنیا و آخرت میں اسے تباہی سے دور چار کرنے کاسبب بھی خود انسان اور اس کے اپنے افعال ہیں۔
یہ انسان ہی ہے کہ جسے خداوند عالم نے اس طرح خلق کیاہے کہ وہ راہ راست اور راہ کج دونوں کا انتخاب کرسکتاہے ۔ روزازل سے آخر تک آنے والے تمام انبیاء (ع) کی آمد کی غرض یہی تھی کہ اس انسان کی کج روی اور باطل راستوں سے انسانیت کے راستے کی طرف ہدایت کریں کہ جس کاایک سرایہاں ہے اور دوسرا خدا کے پاس ۔ اگر ہم اپنی اصلاح، اپنے آپ کو کنٹرول، اپنی تربیت اوراپنی حفاظت کرسکیں تو ہم تمام کاموں میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن اگر ہم نے اپنی اصلاح اور تربیت نہیں کی تو اپنے اسلامی اور انسانی اہداف و مقاصد میں خدا نخواستہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ اس بات کی جانب توجہ بھی بہت ضروری ہے۔ کہ ذمہ دار، سنجیدہ اور صحیح افراد کو خداکی طرف سے عطا ہونے والی توفیق کا وعدہ ہمار ے لیے بھی ہے ۔ ( صحیفہ امام،ج15ص69)
جو چیز ہمار ے تمام کاموں کی صحیح اور مستحکم بنیاد بنتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کے بجائے خدا سے اپنارابطہ اور رشتہ مضبوط بنائیں اور کسی ایک سے بھی کسی قسم کی توقع اور اُمید نہ رکھیں۔ ہم لوگ جو خدا کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں ہمیں اپنے کاموں میں لوگوں کی طرف سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیئے ۔( صحیفہ امام،ج17،ص284)