بات یہ ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ایران کے اندر امن نہ رہے، کوئی بھی کام ہونے نہ پائے۔ جب امن نہ ہو اور عومی بہبود کیلئے کوئی کام نہ ہوسکے تو ملک کے اندر بحران تو ہوگا اور جب ملک کے اندر شور وغوغا ہوگا تو ایسے ہی حالات میں وہ لوگ اپنے مقاصد حاصل کرسکیں گے۔ ان کو انہی مقاصد کیلئے مامور کیا گیا ہے کہ یہ فسادات اور ہنگامے کرائیں تاکہ وہ اُن کے مقاصد پورے ہو سکیں ۔ کیا مستضعفین، ملازمین، مزدوروں یا دوسرے عوام کیلئے گھر بنانا کوئی برا کام ہے؟ ایک کام (مثلاً) ہمارے عوام کے مفاد میں ہے یا نہیں ؟ گھر بنانا تو عوام کے مفاد میں ہے ،لیکن وہ کام جو عوام کے فائدے کا ہے اس کو تو وہ لوگ ہونے نہیں دیتے۔ زراعت کو لیجئے۔ کیا زراعت ہمارے ملک کے نقصان میں ہے؟ جس کو یہ لوگ روکتے ہیں ! کوئی زرعی کام نہیں ہونے دیتے۔ یا کارخانوں میں کام ہونا، کارخانوں کا چلنا ،کیا یہ ہمارے عوام کیلئے نقصان دہ ہے؟ در اصل یہ لوگ بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس بحران کے ذریعے شاید بیرونی حکومتوں کو یہ بتلا دیں کہ ایران اپنے آپ کو قائم نہیں رکھ سکتا،یہ ان کی سوچ ہے۔ یوں ان طاقتوں کو لوٹنے کا بہانہ فراہم ہوجائے گا اور ایران کے نظم ونسق کو قائم رکھنے کے بہانے یہاں کوئی بیرونی طاقت اپنا قبضہ جمالے گی ۔ بس اس طرح وہ ایک انقلاب لے آئیں گے اور اپنی اہداف کو پہلے سے بھی بدتر کر کے آگے بڑھائیں گے اور ہم پھر سے مزید طویل عرصے کیلئے (خدا جانتا ہے کہ یہ کب تک رہے گا) ان ہی سابقہ حالات کے غلام بن کر رہ جائیں ۔
صحیفہ امام، ج ۷، ص ۴۰۶۔ ۳۱؍۲؍۵۸ (۲۱ مئی ۱۹۷۹ ء)