جماران نیوز ایجنسی کے مطابق، علماء سے خطاب کرتے ہوئے آیۃ اللہ وحید خراسانی نے فرمایا:
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا) کے گوہر وجود سے آشنا ہوئیے اور لوگوں کو بھی آشنا کیجئے۔
حضرت آیۃ اللہ وحید خراسانی نے فرمایا: ایام فاطمیہ کی فرصت کو غنیمت سمجھئے، آج کا دن ایام فاطمیہ کی تمہید ہے؛ [فاطمہ کون ہیں؟] ہم نہ سمجھ سکے! ہم پہچان نہ سکے! نہ ہی کوئی کما حقہ معرفت پیدا کرسکتا ہے!
روایت میں ہے کہ لفاطمة تسعة أسماء عند الله، اللہ کے نزدیک فاطمہ(س) کے نو نام ہیں۔
عن أبی عبد الله، عن آبائه، قال: قال رسول الله ۔ ۔ ۔ رسول اعظم(ص) نے فرمایا: زمین وآسمان کی خلقت سے قبل، نور فاطمہ زہرا(س) خلق ہوا۔ اس آسمان کی خلقت کو آج ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ خلقت [حضرت زہرا(س)] سب پر مقدم ہے۔
سوال ہوا: اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب فاطمہ(س) انسانوں میں نہیں ہیں!! حضرت کا جواب یہ ہے: اس دنیا میں خلقت کا مبداء ومنشاء، نور خدا ہے؛ الله نور السماوات والأرض۔
جب آسمان نہ تھے، زمین بھی نہ تھی تو آخر فاطمہ کہاں تھیں؟ فرمایا: عرش رحمان کے نیچے ایک خاص جگہ پر۔
اس کے بعد دریافت کیا گیا: آپ کی غذا کیا تھی؟ فرمایا: التَّسْبِیحُ والتقدیس وَالتَّهْلِیلُ وَالتَّحْمِیدُ.
اب امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث انسان کی سمجھ میں آسکتی ہے: إنما سمیت فاطمة فاطمة لأن الخلق مفطوم ۔ ۔ ۔ کیونکہ مخلوقات خدا آپ کی شناخت سے عاجز ہیں۔
فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ وَأَخْرَجَنِی مِنْ صُلْبِهِ وأَحَبَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَل أَنْ یُخْرِجَهَا مِنْ صُلْبِی ۔ ۔ ۔ جناب جبرئیل(ع) نے کہا: یہ سیب آپ کی خدمت میں الہی تحفہ ہے۔ اجر رسالت کا یہ مقام ہے۔ میں نے اسے لیا اور سینہ سے لگایا؛ اس کے بعد جبرئیل نے فرمایا: اسے کھا لیجئے۔ جب نبی اکرم(ص) نے اس سیب کو تقسیم کیا، اس سے ایسا نور ساطع ہوا جسے دیکھ کر خود آنحضرت نے گریہ وزاری کیا۔ یہ جوہر کون ہے؟ ایسا نور جس کی تابندگی اور درخشش اس حد تک ہو کہ جسے دیکھ کر خاتم النبیین، عقل کل، کل عقل، کل الکمال، کمال الکل بھی گریہ وزاری کرنے لگے!!
یہ نور اس ذات کا ہے جس کانام آسمان میں منصورہ ہے، زمین پر جس کا نام فاطمہ ہے۔ یہ روز قیامت کے لئے ذخیرہ ہے۔ وہ دن جب تمام انبیاء فرمائیں گے: وانفســا! وہ دن، جناب زہرائے مرضیہ(س) کی سلطنت کا روز ہوگا، وہ دن وہ ہوگا کہ جب آپ کو لایا جائے گا ویفرح المؤمنون بنصر الله.
روایات میں بارہا ذکر ہوا کہ لما سقطت إلی الأرض، جیسے ہی شکم مادر سے آپ نے اس روی زمین پر قدم رکھا، ایک ایسا نور برسا جس سے تمام عالم امکان منور ہوگیا۔ آخر یہ کس گوہر کی بات ہو رہی ہے؟!
روز فراق زہرا(س)، امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے لئے دائمی غم واندوہ کا دن، اس ذات کو آپ کی معرفت حاصل ہوئی، وہ ذات جسے دیکھنے جنگ احد میں پیغمبر اعظم تشریف لائے، جیسے ہی نگاہ پیغمبر جسم پر پڑی کیا دیکھا کہ بدن میں جگہ جگہ زخم موجود ہیں، دیکھتے ہی نبی اکرم(ص) نے گریہ کیا۔ لیکن خود آپ(ع) نے فرمایا: یا رسول الله! کیا خدا مجھ سے راضی ہے؟ انیسویں کی صبح میں ایسی شمشیر آپ کے سر اقدس پر لگی کہ جسے ہزار درہم میں خریدا گیا تھا، جو زہر سے بجھی ہوئی تھی۔ اس موقع جبرئیل امین(ع) نے زمین وآسمان کے درمیان آواز بلند کی: تهدمت والله أرکان الهدی، لیکن خود آپ نے فرمایا: فزت ورب الکعبة؛ لیکن جس وقت اس مرد خدا نے جنازہ فاطمہ زہرا(س) کو اٹھایا اور پیغمبر(ص) کے حوالہ کرنا چاہا فرمایا: یا رسول اللَّه! اب میری راتوں کی نیند ختم ہو جائے گی، یہ غم واندوہ میرے لئے ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ یا رسول اللَّه! فاطمہ کی خبرگیری کیجئے!! معلوم ہوتا ہے کہ بی بی(س) نے پڑنے والی مصیبتوں کو علی(ع) سے بیان نہیں کیا۔ مولا(ع) نے فرمایا: رسول الله! استخبرها الحال...