دین کے عملی احیا میں امام خمینی (ره)کی روش شناسی، الٰہی تشخص اور معاشرے کا قیام

معاشرے کو الٰہی بنانے کے سلسلے میں عوام کا مرکزی کردار ہے

ID: 47484 | Date: 2017/05/13

اس میدان میں  بحث دو کلی موضوعات میں  تقسیم ہوتی ہے:  فرد کی تربیت (شخصیت اور تشخص میں  انقلاب) سے متعلق امام خمینی  (ره) کی روش شناسی اور معاشرے کو دینی بنانے (معاشرتی انقلاب) کے بارے میں  امام خمینی  (ره) کی روش شناسی؛ بالفاظ دیگر حیاتیاتی اور عقلانی شخصیت کے تابنے کو ربانی شخصیت کے کندن میں  تبدیل کرنے پر مبنی آپ کی روش اور حیاتیاتی (دیہاتی) معاشرے اور عقلانی (شہری معاشرے) کو الٰہی معاشرے میں  تبدیل کرنے پر مبنی آپ کی روش ہے۔ ان دو موضوعات کے بارے میں  مفصل بحث کیلئے کئی مقالات کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم یہاں  موضوع کی مناسبت سے صرف امام خمینی  (ره) کی سماجی میدان میں  روش شناسی پر ایک طائرانہ نظر ڈال رہے ہیں :


دین کے عملی احیا میں  یعنی الٰہی معاشرے کے قیام کے سلسلے میں  امام خمینی  (ره) کی روش شناسی پر ایک اجمالی تحقیق کی صورت میں  مندرجہ ذیل اصول قابل غور ہیں :


۱۔  دینی انقلاب اور اصلاح کیلئے الٰہی رہبر کی ضرورت:  الٰہی قیادت کی جانب توجہ امام خمینی  (ره) کی روش شناسی کا پہلا اصول ہے۔ نبوت کے زمانے میں  انبیائے کرام، امامت کے دور میں  رسول اکرم  ؐ کے اوصیا اور وصی کامل کی غیبت کے زمانے میں  اولیائے الٰہی یا علمائے حق اس منصب کے حقدار ہوں  گے۔ پس خدائی صفات کا حامل یعنی ایک عاشق حق شخصیت، الٰہی شجاعت وشہامت کے مالک، خدائی استعداد اور اعلیٰ علم وآگاہی کا مالک ایسا قائد ضروری ہے جو عبادت اور آخرت کو یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ دنیا اور سیاست سے بھی آگاہ ہو۔( امام خمینی، ولایت فقیہ)


۲۔  دفتری اور سیاسی نظام سے غیر الٰہی حاکمیت اور طاغوت کے خاتمے کی ضرورت کا اصول:  یہ اصول الٰہی معاشرے کے قیام کیلئے دوسری لازمی شرط ہے، یعنی طاغوت کی حاکمیت کے ہوتے ہوئے الٰہی حاکمیت کو وجود میں  لانا عقلی اعتبار سے بلکہ عادی اعتبار سے بھی محال ہے اور شرعی اور دینی اعتبار سے طاغوت کی حکومت کا باطل ہونا تو مسلم ہے ہی، جیسا کہ ملک کے سیاسی اور دفتری نظام پر غیروں  کے تسلّط کے ہوتے ہوئے ایک الٰہی معاشرے کے قیام کی بات بے جا نظر آتی ہے۔ پس معاشرے کو الٰہی کرنے کا آغاز غیر دینی سیاسی تسلّط وحاکمیت کی نفی سے ہونا چاہیے، کیونکہ سیاسی حاکمیت ہی ثقافتی، اقتصادی اور فوجی ودفاعی حاکمیت کی کلید ہے۔( اصول کافی، ج ۲، ص ۲۰ ۔ ۱۵)


۳۔  ولی امر کی حاکمیت کے ذریعہ دین کی حاکمیت:  طاغوت کے تسلّط سے رہائی کے بعد ولی امر یا الٰہی رہبر کی ولایت کے ذریعہ الٰہی حکومت معاشرے میں  قائم ہوتی ہے، یعنی نظام سیاست کا کلی اور مجموعی انتظام ولی الٰہی کے ہاتھ میں  ہوتا ہے۔ اس کے بعد معاشرے کا الٰہی انتظام اوپر سے نچلی سطح تک سرایت کرجاتا ہے۔ اس طرح الٰہی وصالح رہبروں  کی تقرری کے ذریعہ پورا دفتری نظام تدریجاً نیک اور صالح افراد کے ہاتھوں  میں  قرار پاتا ہے اور روز بروز الٰہی انسانوں  کی تعداد میں  اضافہ ہوتا ہے اور قوم امت میں  تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں  دیہاتی معاشرہ نہ فقط شہری معاشرے میں  بدل جاتا ہے بلکہ شہری معاشرہ بھی الٰہی معاشرے میں  تبدیل ہوجاتا ہے۔


۴۔  ربانی جمہوریت وحاکمیت:  امام خمینی  (ره) جہاں  دین کے عملی احیا میں  ولایت کی حاکمیت کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں  وہاں  عوام کی حاکمیت، لوگوں  کو ذمہ داری سونپے اور ان کے کردار پر بھی زور دیتے ہیں ۔ جیسا کہ فرماتے ہیں : ’’معیار قوم کا فیصلہ ہے‘‘ یا ’’ہمارے پاس جو کچھ ہے اس ملت کی وجہ سے ہے۔۔۔ اگر یہ لوگ خصوصاً مستضعفین اور ان میں  بھی خصوصاً شہر کے جنوب میں  بسنے والے لوگ، یعنی پابرہنہ افراد، اگر یہ نہ ہوتے تو آپ لوگ اس وقت یا قید ہوتے یا جلا وطن یا گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہوتے‘‘۔( اسلام ناب، ص ۳۹۴ ۔ ۳۹۳)


امام خمینی  (ره) کی روش شناسی میں  اس اصول کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کو الٰہی بنانے کے سلسلے میں  عوام کا مرکزی کردار ہے۔ پس عوام کو کردار اور ذمہ داری سونپے بغیر ایک الٰہی معاشرے کا قیام عقل کے نزدیک محال بلکہ مقصد اور غرض کے منافی ہے۔


اس بنا پر لوگوں  کو بنیادی کردار سونپنا اور اہمیت دینا (خصوصاً جن کی اکثریت محرومین پرمشتمل ہے) پیغمبروں  اور اولیائے الٰہی کی تحریکوں  کا ہدف اور مقصد ہے اور اس مقصد تک پہنچنے کا راستہ بھی۔ اسی وجہ سے اسے احیا عملی دین سے متعلق امام خمینی  (ره) کی روش شناسی میں  ایک بلند مقام حاصل ہے۔


 ، ،  ،  ، ، ، ، ، ، ، ، ، ، ،  ، ،  ،  ، ، ،