حجت الاسلام والمسلمین مسیح مہاجری

امام خمینی(ره)کی قیادت

مجھے حوزہ علمیہ میں علم حاصل کرنے، امام خمینی(ره) کی محفلوں میں شریک ہونے اور انقلاب اسلامی کے ابتدائی سالوں میں آپ کے گھر جانے کی توفیق نصیب ہوئی

ID: 44833 | Date: 2016/08/13

حضرت امام خمینی(ره)  کی قیادت کی نمایاں  ترین خصوصیت یہ تھی کہ آپ جو کہتے اس پر عمل بھی کرتے اور جس چیز کو اسلام مصلحت اور فریضہ الٰہی جانتے اسے عملی جامہ پہنانے تک اس کے درپے رہتے۔ آپ کسی چیز اور کسی شخص  کی پراوہ نہ کرتے۔  خدا تعالیٰ  کے فرمان { الذین قال لہم الناس ان الناس  قد جمعوا لکم فاخشوہم فزادہم ایمانا وقالوا  حسبنا اللہ و نعم الوکیل} (سورہ آل عمران ؍ ۱۷۳) کا واضح مصداق  خود امام خمینی(ره)  کے اس کلام میں  ہے ’’ میں  ان انسانوں  میں سے نہیں  ہوں  جو ایک حکم دے کر یہ سوچ کر سوتے رہتے ہیں  کہ  حکم پر خود بخود  عمل در آمد ہوجائے گا۔  میں  اس حکم کی پیروی کرتا ہوں ۔۔۔۔  میں  جب دیکھتا ہوں  کہ مصلحت اسلام فلاں  بات کرنے میں  مقتضی ہے تو میں  وہ بات کرتا ہوں  اور پھر اس کی پیروی کرتا ہوں  کسی چیز سے نہیں  ڈرتا ہوں  ، بحمد للہ تعالیٰ ۔ خدا کی قسم میں  آج تک نہیں  ڈرا ہوں ۔ جس دن مجھے گرفتار کر کے لے جا رہے تھے اس دن وہ خود ڈر رہے تھے اور میں  ان کو تسلی دے رہا تھا کہ مت ڈرو‘‘۔  (صحیفہ امام،  ج ۱، ص ۷۲)


 امام خمینی(ره)  کی عظیم روح اور خدا کی متلاشی  شخصیت اس امر کی مقتضی تھی کہ آپ ہرگز اپنی خدمات کا ذکر نہ کریں  اور ہمیشہ دوسروں   کو ہی مثالی حیثیت سے پیش کریں  ، یہ بجائے خود خدا تعالیٰ  کے اس نیک بندے کی قیادت کی ایک نمایاں   اور سبق آموز خصوصیت ہے۔  آپ اپنی ساری زندگی میں  اسلامی جمہوریہ  کے نظام کی برقراری  سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی  ہمیشہ  ناداروں  کے معین و مدد گار رہے اور جس زمانے میں  جس قدر  آپ کے لئے ممکن ہوتا ان کی دستگیری  کرتے اور  ان کے ساتھ رہتے ۔  آپ نے کبھی بھی اپنا اور غربت کے خاتمے  اور اسلامی عدالت طلبی  فکر  کے احیا کے سلسلے میں  اپنی خدمات  کا ذکر تک نہیں  کیا اور ہمیشہ دوسروں  کو مثالی حیثیت سے پیش کیا۔  اسی نکتے کے پیش نظر  ہم سب کو کہ ہم پر امام خمینی(ره)  کے بہت زیادہ معنوی احسانات ہیں ،  اس بارے میں  سوچنا چاہئے کہ ہمیں  اپنے عظیم قائد  کے مکتوب  ارشادات  یعنی قرطاس پر آنے والی تقاریر  اور پیغامات میں  موجود  آپ کے نظریات کی تدوین ، تجزئیے اور وضاحت کے علاوہ آپ کی عملی سیرت کو ثبت کرنے کے لئے موثر  اقدامات کرنے چائیں  اور اس گرانقدر  گوہر کو کہ جس کا دائرہ کیفیت کے اعتبار سے بھی اور کمیت کے اعتبار سے بھی آپ کے زبانی اور تحریری ارشادات سے وسیع اور دلوں  میں  اس کا اثر بھی زیادہ ہوگا کی تدوین اور تجریہ کرنا چاہئے۔ 


مجھے حوزہ علمیہ  میں  علم حاصل کرنے ، امام خمینی(ره)  کی محفلوں  میں  شریک ہونے اور انقلاب اسلامی کے ابتدائی سالوں  میں  آپ کے گھر جانے  کی توفیق نصیب ہوئی۔  اس عرصے میں  ، میں  نے اپنی آنکھوں  سے دیکھا کہ جب بھی لوگوں  کی محرومیت اور تکالیف کی خبریں  آپ تک پہنچتیں  تو آپ بہت پریشان ہوجاتے اور  غریبوں  اور  جن پر آفت ٹوٹتی ان کے مسائل حل کرنے کی مسلسل اور بڑے پیمانے پر کوشش کرتے ۔  ۱۹۶۵ ء   کے موسم سرما  میں  برفباری اور شدید سردی نے تہران، قم ،  ہمدان ، اصفہان کے شہروں  اور  ان علاقون کے دیہاتوں   کو بے دست و پا کردیا اور  بہت زیادہ نقصان  ہوا جس کا امام خمینی(ره)  کو بہت زیادہ دکھ ہوا اور آپ نے  پہلوی حکومت  کی جیل سے ہی اپنے ساتھیوں  کو متاثرین  کی مشکلات و مسائل حل کرنے کی تاکید کے علاوہ  جیل سے رہائی  پانے کے بعد  قم میں    ۱۹۶۵ ء  کو اپنی  ۲۱  فروردین اور  ۲۵ اردیبہشت کی تقاریر میں  بھی بار ہا لوگوں  کی افسوسناک صورتحال پر اپنی تشویش  کا اظہار کیا۔  آپ نے فرمایا: 


’’ جب میں  جیل میں  تھا تو مجھے خبر ملی کہ ہمدان میں  درجہ حرارت  منفی ۳۳  سینٹی گریڈ  تک پہنچ گیا ہے اور پھر خبر آئی  کہ سردی کی وجہ سے دوہزار افراد جان بحق ہوگئی ہیں  ۔  اس وقت میرے اختیار میں  کچھ نہیں  تھا۔  میں  کیا کر سکتا تھا ؟  یہ صورتحال  صرف ہمدان کی تھی ۔  تہران اور  دوسرے شہر وں  میں  بھی بہت جانیں  ضائع  ہوئیں  ۔  حکومت نے کیا اقدامات کئے؟  دریں  اثنا حکومت نے اپنے آقاؤں   کے استقبال کے لئے طیارے کے ذریعے ہالینڈ  سے پھول منگوائے اور غریب عوام کی دولت ضائع کی‘‘۔  (صحیفہ امام، ج ۱، ص ۶۶ و ۷۲)


غربت کے خاتمے اور ناداروں  کی حمایت  کے سلسلے میں  امام خمینی(ره)  کے عملی طور پر پابند ہونے کا جلوہ جیل کی کوٹھری اور شدید ترین حالات میں  بھی نظر آتا ہے ۔ امام خمینی(ره)  نے خود جیل  کے زمانے کی جو باتیں  بتائی ہیں  ان میں  سے ایک یہ ہے کہ ’’جب پہلی حکومت  ختم ہوگئی تو جیل میں  ایک شخص  میرے پاس آیا اور سابقہ حکومت کو برا بھلا کہنے لگا اس نے کہا کہ موجودہ حکومت کی پالیسیاں   ترقی پسندانہ ہیں ۔  تو میں  نے کہا کہ ہمارا کسی سے کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں  ہے۔  ہمارا سروکار  اشخاص کے کام سے ہے ۔  تم غریب عوام کو نجات دلاؤ‘‘۔   (صحیفہ امام،  ج ۱ ، ص ۶۶)


حضرت امام خمینی(ره)  کی قیادت کے زمانے میں   اور اس کے پہلے کی ایک جیسی سادہ زندگی  ، ناداروں  کے ساتھ آپ کی دوستی  اور انس،  سرمایہ داروں  اور  دولتمندوں   کے ساتھ میل جول سے پرہیز ،  شیطانی طاقتوں ،  طاغوتوں  اور ظالموں   کا بے پناہ  مقابلہ اور اندرونی اور  بیرونی مستکبروں  کے ساتھ صلح پر مبنی ان کی حسرت ایک لمحے تک کے لئے بھی پوری نہ کرنا اس بات کی منہ بولتی دستاویزات  ہیں  کہ اس عہد کی محبوب ترین  اس ہستی کا عمل و کردار آپ کے نظریات، تحریروں  اور اقوال پر پوری طرح منطبق ہے اور یہ انطباق  اس حد تک پہنچ گیا کہ امام خمینی(ره)  نے غربت  کے خاتمے اور اسلامی عدالت طلبی کی فکر کے احیا کے ساتھ ساتھ حتی کہ  اس موضوع سے متعلق  اسلامی اصطلاحات  کے احیا سے بھی غفلت نہیں  برتی ہے ۔  آپ نے مسلمانوں  اور  ایرانیوں   کے سیاسی کلچر  میں  استضعاف ، محرومیت ، عدالت،  استکبار،  طاغوت،  فقراء  کچے مکانوں  میں  رہنے والے،  جھونپڑیوں  میں  رہنے والے ، محل میں  رہنے والے،  نادار اور خیموں   میں  رہنے والے ۔۔۔۔  جیسے الفاظ  بھی زندہ کئے۔  ہم اس امید  کے ساتھ کہ عصر حاضر میں دنیا  بھر کے ناداروں  اور مستضعفین  کے اس سہارے نے اسلام ،  اسلامی امت اور تمام اقوام کی جو عظیم  اور ناقابل فراموش  خدامت انجام دی ہیں   ان کی ہم قدردانی کریں  گے  اور اس اعتراف کے ساتھ کہ زیر نظر مقابلہ غربت  کے خاتمے اور اسلامی عدالت طلبی  کے سلسلے میں  امام خمینی(ره)  کے بے کراں   دریائے نظر  یہ و عمل  کے فقط ایک قطرے پر مشتمل ہے۔ ہم اس مقالے کو امام خمینی(ره)  کے کلام کے ایک اقتباس کے ساتھ کہ جو محروموں   کے ساتھ امام خمینی(ره)  کی گہری محبت  کا غماز ہے،  اختتام تک پہنچاتے ہیں ۔  امام خمینی(ره)  نے  ۱۹۸۰ء  میں  تہران میں  دل کے ہسپتال میں  جبکہ آپ وہاں  زیر علاج تھے  اس وقت کے وزیر صحت اور اپنے ڈاکٹروں   کو مخاطب کر کے فرمایا:


’’مجھے اس وقت مسرت ہوگی جب مجھے یہ پتہ چلے گا کہ حضرات اس امر کے درپے ہیں  کہ شہروں  کے غریبوں  اور  خیموں  میں  زندگی  گزارنے والوں  کہ جن جانب طاغوت  کے زمانے میں  کوئی توجہ نہ دی گئی تھی اس زمانے میں  توجہ دی جائے ۔  صحت لوگوں  کا بنیادی مسئلہ ہے اس کی سہولت  سب کے لئے یکساں  طور پر  ہونی چاہئے۔  ایسا نہ ہوں  کہ ایک  کے لئے سب  سہولتیں   میسر ہوں   اور دوسرے کو کوئی سہولت میسر نہ ہو۔  میں  امید کرتا ہوں   کہ ڈاکٹر  حضرت جہاں  جہاں  بھی ہیں  اور  حکومت ،  وزارت صحت اور  خود عوام  بھی اس جانب متوجہ رہیں  کہ یہ نادار اور  غربا یہ جو کہ خدا تعالیٰ  کے عیال ہیں   اس طرح مسائل و  شدائد  میں  گھرے نہ رہیں ‘‘۔  (صحیفہ امام،  ج ۱۱، ص ۲۴۸)