اسلام کی شناخت

اسلام کی شناخت کے لئے اس کے تمام مسائل منجملہ عبادات اور معاشرتی اور سیاسی مسائل وغیرہ پر غور کرنا چاہئے

ID: 43877 | Date: 2016/05/11

اسلام کو سمجھنے کے لئے اس کے تمام پہلووں  کا جائزہ لینا چاہئے اور جو شخص اس مسئلے کا نہیں  سمجھتا اور اس کی طرف متوجہ نہیں  ہے،  وہ ماہر اسلامیات نہیں  بن سکتا۔ اسلام کے تمام مسائل منجملہ عبادات اور معاشرتی اور سیاسی مسائل وغیرہ پر غور کرنا چاہئے۔ چنانچہ امام خمینی(ره)  کی نظر میں  اسلام ایک مکمل سیاسی نظام ہے اور یہ انسان کی تمام ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :


’’۔۔۔ اسلام صرف عبادتوں  کا نام نہیں  ہے، اس میں  صرف عبادات کی تعلیم و تعلم اور اس طرح کی دوسری باتیں  نہیں  ہیں ، اسلام عبارت ہے سیاست سے۔ اسلام ایک طرز حکومت ہے ، ایک سیاسی نظام ہے۔ البتہ دوسرے تمام نظام بہت سے امور سے غافل تھے جبکہ اسلام کسی چیز سے غافل نہیں  ہے۔۔۔‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۵، ص ۱۰۷)


اسی لئے ہم سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور عبادی رہبر کے درمیان فرق کے قائل نہیں  ہو سکتے بلکہ حقیقت میں  ایک ہی رہبر و قائد یہ سب ذمہ داریاں  پوری کر سکتا ہے)۔ امام خمینی(ره)  کا قول ہے: ’’اگر آپ ہماری اسلامی ثقافت میں  مذہب کے مفہوم کو درک  کرتے ہوئے اسے دریافت کر سکیں  تو آپ کو واضح طور پر نظر آئے گا کہ مذہبی قیادت اور سیاسی قیادت میں  کسی قسم کا تضاد نہیں  پایا جاتا ہے۔۔۔‘‘(صحیفہ امام، ج۴، ص ۱۶۷)


ان مسائل کا منبع ہم مسلمانوں  کی مذہبی کتاب قرآن مجید ہے جو ایک جامع و متحرک کتاب ہے جس میں  انسانی زندگی کے تمام پہلووں  کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ امام خمینی(ره)  فرماتے ہیں : ’’دین اسلام کی سند ، قرآن ہے جو محفوظ ہے حتی کہ اس کا ایک لفظ بھی تبدیل نہیں  ہوا ہے۔۔۔۔ قرآن ہر شئے پر مشتمل ہے، یعنی یہ ایک انسان ساز کتاب ہے‘‘(صحیفہ امام، ج۳، ص ۱۲۱)


’’اسلام کے سیاسی احکام اس کے عبادی احکام سے زیادہ ہیں ، عبادت سے زیادہ سیاست کے موضوع پر اسلام میں کتابیں لکھی گئی ہیں ‘‘۔ صحیفہ امام، ج۱، ص ۲۳۹)


’’جتنی آیات و احادیث سیاست کے بارے میں پائی جاتی ہیں  اتنی عبادت کے بارے میں  نہیں  ملتیں ۔ آپ فقہ کی پچاس سے زیادہ کتابوں  کا ملاحظہ کریں  ان میں  سے سات آٹھ کا تعلق عبادات سے ہے جبکہ دوسری کتابیں  ، سیاست ، عمرانیات اور معاشرتی علوم وغیرہ کے بارے میں  ہیں ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۵، ص ۲۰)


حضرت امام خمینی(ره)  ایک فقیہ ، قرآن شناس اور ماہر اسلامیات تھے اسی لئے وہ زور دے کر کہتے ہیں  کہ سیاست اور معاشرتی معاملات کے علاوہ اسلامی کتب اور متون میں  کوئی اور بات نظر نہیں  آتی اور اگر ہے تو بہت کم اور جزوی حد تک اور عبادات بھی اسلام میں  سیاست کا حصہ ہے۔ چنانچہ انہوں  نے فرمایا ہے: ’’۔۔۔۔ خدا کی قسم ! اسلام تمام کے تمام سیاست ہے اور اسلام کو غلط طور پر پیش کیا گیا ہے، مدنی سیاست کا سرچشمہ اسلام ہے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱، ص ۶۵)


اسلامی احکام کے ساتھ سیاست کی آمیزش ان دلچسپ نکات میں  سے ایک ہے جنہیں  امام خمینی(ره)  پیش کرتے تھے، یعنی اگر اسلام نے زکات ادا کرنے کو فرض قرار دیا ہے اس میں  مالی مسائل کے علاوہ سیاسی مسائل کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے: ’’۔۔۔ (اسلام کے) تمام احکام سیاست کے ساتھ مخلوط ہیں ۔۔۔ اس کی نماز میں  سیاست شامل ہے ، حج بھی سیاست سے ملا ہوا ہے اور زکات بھی سیاست اور ملکی نظم و نسق کا حصہ ہے۔۔۔‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۹، ص ۱۳۷ و ۱۳۸)


اسلام میں  بڑے بڑے اجتماعات ہیں  لیکن ان سے کما حقہ فائدہ نہیں  اٹھایا جاتا ہے۔ نماز جمعہ ، حج ، عید الاضحی اور عید الفطر کی نمازیں  جو بظاہر عبادت کے اجتماعات ہیں ، لیکن امام خمینی(ره)  کی نظر میں   عبادتی پہلو کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر سے سیاست کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔۔۔ در حقیقت نماز جمعہ کے خطبے میں  مسلمانوں  کے مسائل پر گفتگو ہونا چاہئے، مسلمانوں  کو ایک دوسرے کے مسائل اور حالات سے باخبر ہوکر ان مسائل کے حل کے لئے کوششیں  بروئے کار لانا چاہئیں  ، مراسم حج کے جملہ مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے لیکن ایسا نہیں  ہوتا ، بے شمار لوگ دنیا کے مختلف مقامات سے پیسہ خرچ کر کے وہاں  جاتے ہیں  لیکن معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کے لئے کسی قسم کی عملی کوششیں  نہیں  کی جاتی، کیا یہی فلسفہ حج ہے؟ بلا استثنا ان اجتماعات کے دو پہلو ہیں ، سیاست اور عبادت جو در حقیقت ایک دوسرے میں  مدغم ہیں  ، یعنی وہی عبادتی پہلو سیاسی پہلو کا بھی حامل ہے یا اس کے برعکس۔ (صحیفہ امام، ج۱۳، ص ۱۵۳ و ۱۵۴)


عبادتی پہلوؤں  کے علاوہ اسلام کے اخلاقی پہلو بھی سیاست میں  مدغم ہیں  ، یعنی اخلاقی مسائل سیاسی پہلو کے بھی حامل ہیں  ، مثلا { اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوُۃٌ } کا حکم وحدت و یکسوئی پیدا کرنے کے لئے مسلمانوں  کی نفسیات پر اثر انداز ہو کر ان کی صفوں  میں  وحدت و یکجہتی پیدا کرتا ہے تاکہ وہ ذمہ داری اور فرض شناسی کا احساس کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کے لئے آگے بڑھیں ۔ (صحیفہ امام، ج۱۳، ص ۲۳ و۲۴)