مسجد

نماز جمعہ، ایک سیاسی اجتماع

مسجد اور نماز جمعہ، حرکت کی جگہ ہے

آپ لوگ اطراف عالم سے اور دنیا کے مختلف علاقوں  سے تشریف لائے ہیں  اور آپ سب علماء ہیں ، لہذا آپ کو پیغمبر اکرم  ﷺ اور ائمہ اسلام  (ع) کی سیرت سے متمسک ہونا چاہیے کہ جو اُن ذوات نے ہمارے درمیان چھوڑی ہے۔ یہ ذوات اُس دن بھی اپنی ادعیہ کے ذریعے عوام کو دعوت دے رہے تھے کہ جب ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ حکومت وقت کی سیاست کے خلاف بات نہیں  کرسکتے تھے۔ لہذا دعا کرتے تھے اور دعا کے ذریعے عوام کو دعوت دیتے تھے اور جس دن بھی اُنہیں  فرصت ملتی تھی تو وہ ہر مناسب موقع پر اپنی دعوت کو صراحت کے ساتھ بیان کرتے۔ جب آپ لوگ اپنے اپنے ممالک کی طرف لوٹیں گے تو نماز جمعہ کے خطبات میں  اور جو دعائیں  آپ پڑھتے ہیں ، یہ سب جس طرح صدر اسلام میں  یہ خطبات سیاسی پہلو رکھتے تھے (اب بھی ایسے ہی ہیں )۔ نماز جمعہ ایک سیاسی اجتماع ہے، نماز جمعہ کاملاً ایک سیاسی عبادت ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ بعض جگہ انسان دیکھتا ہے کہ نماز جمعہ میں  بالکل وہ چیزیں  بیان نہیں  کی جاتیں  جن کی اقوام کو ضرورت ہے اور جن کے مسلمان اور اسلامی معاشرے محتاج ہیں ۔ جس طرح اوائل اسلام میں  نماز جمعہ تھی اسی طرح اب بھی ہونی چاہیے، یہ محافل اور نمازیں ، سیاسی پہلو رکھتی تھیں ، مساجد سے جنگ کیلئے لشکر بھیجے جاتے تھے اور مساجد سے ہی سیاسی مسائل کی منصوبہ بندی ہوتی تھی۔ محلے کی مسجد اسی لئے تھی اور یہیں  سے سیاسی مسائل پیش کئے جاتے تھے، لیکن افسوس کے ساتھ ہم نے مساجد کو ایسا بنا دیا ہے کہ اب یہ مساجد مسلمانوں  کے مصالح سے بالکل دور ہوچکی ہیں  اور خود ہمارے ہی ہاتھ سے وہ منصوبے ختم کردیئے گئے ہیں  جو یہاں  پیش کیئے جا نے چاہیے تھے۔ لہذا آج ہم دیکھ رہے ہیں  اور سب مسلمان دیکھ رہے ہیں  کہ جو انہیں  دیکھنا چاہیے۔ آج مسلمانوں  کو بیدار ہونا چاہیے، وہ جب دیکھیں  کہ اُن کی حکومتیں  اسلام کے خلاف عمل کررہی ہیں  تو اُنہیں  صراحت کے ساتھ کہنا چاہیے، نہ کہ وہ دعا اور خطبہ کے ذریعے کہیں ، بلکہ صراحت کے ساتھ ظالموں اور متجاوزوں  اور مخالفین اسلام کے ساتھ مقابلہ کریں ۔ آج خطبات کو فقط چند دعائوں  اور چند اذکار تک محدود نہ رکھیں ، بلکہ جیسا کہ ابھی تک ہوتا آیا ہے خطبات کے، مطالب کو مستحکم کریں ۔

(صحیفہ امام، ج ۱۸، ص ۴۲۴)

ای میل کریں