جس قدر آیات وروایات سیاست کے بارے میں بیان ہوئی ہیں اس قدر عبادت کے بارے میں بیان نہیں ہوئیں، آپ فقہ کی پچاس سے زیادہ کتابوں کو ملاحظہ کریں تو ان میں سات آٹھ کتابیں عبادت کے سلسلہ میں ہیں اور باقی سب سیاست، سماجیات اور معاشرہ سے متعلق ہیں، اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں کہ ہم نے انہیں پس پشت ڈال دیا اور ایک کمزور پہلو کو لے لیا، اسلام کا تعارف ہم سے غلط طرح سے کرایا ہے کہ ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ اسلام کا سیاست سے کیا ربط ہے؟ سیاست بادشاہوں کیلئے اور محراب مولویوں کیلئے ہے! بلکہ محراب بھی ہماری لیے نہیں چھوڑتے، اسلام سیاست کا دین ہے۔ اسلام میں حکومت، آپ حضرت علی - کا مالک اشتر کے نام خط پڑھیں کہ اس میں کیا ہے، پیغمبر اسلام ﷺ اور حضرت علی (ع) کے جنگوں اور پالیسیوں سے متعلق احکام دیکھیں کہ ان میں کیا ہے، یہ وہ خزانہ ہے جو ہمارے پاس ہے۔ اس سے استفادہ کی اہلیت ہم میں نہیں ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے ایران کے پاس سب چیزیں ہیں، مگر دوسروں کو دے دیتے ہیں، ہماری کتاب وسنت مستغنی ہے ان میں سب کچھ ہے لیکن ماہرین نے ہمیں غلط بتایا ہے۔
(صحیفہ امام، ج ۶، ص ۴۳)