چونکہ ضروری ہے کہ اس مبارک سفر میں اسلامی سیاسی پروگراموں کے حوالے سے تمام کاروانوں اور گروہوں کے ما بین مکمل ہم آہنگی ہو اور کسی قسم کا ہرج مرج نہ ہو اور اسلامی اخلاق کی مخالفت سے کامل اجتناب ہو لہذا ضروری ہے کہ حجاج محترم اور حج کاروان حج اور حجاج کے امور کے محترم انچارج جناب حجت الاسلام آقا موسوی خوئینی ہا کے ارشادات کی پیروی کریں ، کیونکہ اگر خدانخواستہ ہر کاروان اور ہر گروہ آزادانہ، ہم آہنگی کو پیش نظر رکھے بغیر کوئی اقدام کرے تو ممکن ہے کوئی حادثہ پیش آجائے اور کوئی ایسا انحراف وجود میں آجائے کہ جس سے اسلامی جمہوریہ کا اسلامی اور انقلابی رخ داغدار معلوم ہو اور یہ ایسا عظیم گناہ ہے کہ جس کی خالق اور مخلوق کے سامنے بہت بڑی جواد دہی ہے۔
مجھے امید ہے کہ حجاج عزیز (ایدہم الله تعالیٰ) اپنی طرف اور اپنے دوستوں کی طرف توجہ رکھیں گے کہ الله کی یہ عظیم عبادت گناہ وخطا سے آلودہ نہ ہو۔
الٰہی میقاتوں پر، مقامات مقدس پر اور الله تعالیٰ کے با برکت گھر کے جوار میں خدائے عظیم کی مقدس بارگاہ کے آداب ملحوظ رکھیں ۔ حجاج عزیز کے قلوب غیر حق کے ساتھ ہر طرح کی وابستگی سے آزاد ہوں ، ہر وہ چیز سے کہ جس پر غیر دوست کا اطلاق ہوتا ہے سے خالی ہوں اور تجلیات الٰہی سے منور ہوں تاکہ اس سیر الی اﷲ کے اعمال ومناسک حج ابراہیمی (علیہ السلام) اور پھر حج محمدی (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کے مفہوم سے آراستہ ہوں ۔ عالم طبیعت کے افعال کے بوجھ سے ہلکے پھلکے ہو کر، سب خودپرستی اور خودخواہی سے عالم ہوکر، معرفت حق اور عشق محبوب سے سرشار ہو کر اپنے اپنے وطن کو لوٹیں ۔ دوستوں کیلئے مادی وفانی سوغاتوں کے بجائے باقی وابدی تحفے لے کر لوٹیں ان انسانی واسلامی قدروں سے جھولی بھر کر عاشق شہادت دوستوں سے آملیں کہ جن کیلئے ابراہیم خلیل الله (علیہ السلام) سے لے کر محمد حبیب الله (صلی الله علیه و آله و سلم) تک عظیم انبیاء مبعوث ہوئے۔ یہی وہ قدریں اور جذبے ہیں کہ جو انسان کو نفس امارہ کی قید اور شرق وغرب کی وابستگی سے نجات عطا کرتے ہیں اور لا شرقیہ ولا غربیہ کے مبارک شجر زیتوں تک پہنچا دیتے ہیں ۔
انبیاء (علیہم السلام) کے جذبہ محرکہ کا نچوڑ آخری انسان ساز کتاب قرآن حکیم میں موجود ہے۔ یہ کتاب ہدایت {اﷲ نور السمٰوات والارض} کے مبدأ نور سے خاتم الرسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کے قلب نورانی کی مشکات پر تاباں ہوئی۔ اگر مسلمانان عالم انبیاء کے اس جذبہ محرکہ کو پالیں اور بحر نور سے متصل ہوجائیں تو شیطان اور اس کی اولاد کی قید میں ہرگز نہ آئیں ، توہمی مسند اور تخیلی ریاست کی خاطر اپنے ماتھے پر ننگ وذلت کا داغ قبول نہ کریں اور بڑے شیطان کی قربت کی خاطر اور کیمپ ڈیوڈ جیسے غلامانہ معاہدوں کی خاطر اٹھک بیٹھک نہ کریں ۔ اے قرآن واسلام کے سمندر سے جدا ہوجانے والے قطرو! ہوش میں آؤ اور اس بحر الٰہی سے متصل ہوجاؤ اور اس نور مطلق سے تابانی حاصل کرو تاکہ عالمی لٹیروں کی نگاہ حرص تم سے پھرجائے، ان کا تسلّط وتجاوز تم سے ختم ہوجائے اور تم شرافتمندانہ زندگی اور انسانی اقدار کو پالو۔ اس شرمناک زندگی سے نجات پالو کہ جس میں مٹھی بھر اسرائیلی تمہارے اردگرد تم پر حکومت کررہے ہیں اور مظلوم مسلمانوں کو تمہارے سامنے پامال کررہے ہیں ۔
بارالہا! ہم سوئے ہوؤں کو بیداری کی توفیق عنایت فرما۔
اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو ایسی بصیرت دے کہ وہ مسلمانوں پر اسلامی معیاروں کے مطابق حکومت کرسکیں اور منحوس طاغوتی بتوں کو توڑ سکیں ۔
(صحیفہ امام، ج ۱۶، ص ۵۱۵)