اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" کے سیکرٹری جنرل "سید حسن نصر الله" نے آج شب، لبنان کی صیہونی پنجوں سے آزادی کے حوالے سے خطاب کیا۔ یہ دن "عید مقاومت" اور "آزادی" کے نام سے منسوب ہے۔ واضح رہے کہ 25 مئی 2000ء کو اسرائیل کو حزب الله کے سامنے شدید حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنوبی لبنان میں اپنے داخلے کے تقریباََ 20 سال بعد صیہونی رژیم، حزب الله کی مقاومت کی وجہ سے بھاگنے پر مجبور ہوئی۔ اسی وجہ سے یہ دن عید مقاومت کے نام سے معروف ہے۔ اس دن کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ عید مقاومت ایک اہم موقع ہے جو ہمیں آج کے دن حاصل ہونے والی ایک بڑی فتح کی یاد دلاتا ہے۔ لہٰذا میں شہداء، زخمیوں، اسیروں، مجاہدوں اور ان کے لواحقین سمیت تمام افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس فتح میں اپنا کردار ادا کیا۔ ہم مقاومت کے حامیوں کے بھی قدردان ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر لبنان کی فوج، سکیورٹی اداروں، فلسطینی گروہوں، اسلامی جمہوریہ ایران اور شام کے کردار کو سراہا۔
سید حسن نصر الله نے ایران و شام کا خاص طور پر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں ممالک آج بھی مقاومت اور تمام جہادی گروپوں کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہماری جنگ ختم ہو چکی ہے وہ خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ کیونکہ ابھی بھی ہماری سرزمین ایک حصہ دشمنوں کے قبضے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس اہم مناسبت کو باقی رکھنا اور اپنی اگلی نسلوں کو متعارف کروانا چاہئے۔ ہماری اگلی نسل کو جاننا چاہئے کہ ہمیں یہ کامیابی مفت میں نہیں ملی۔ جو اس عظیم کامیابی کو چھوٹا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کی اصلاح کریں گے۔ 2000ء میں جنوبی لبنان اور غزہ سے صیہونی رژیم کے خروج کے بعد گریٹر اسرائیل کے کسی نظریے کا وجود نہیں۔ حزب الله کے سربراہ نے اس امر کی جانب اشارہ کیا کہ اسرائیل اس وقت دیوار کے ساتھ لگ چکا ہے۔ یہ رژیم فلسطینی عوام کے ساتھ مذاکرات میں اپنی شرائط تک نہیں منوا سکتی۔ امریکہ اب سپر پاور نہیں رہا اور دنیا اس وقت مختلف بلاکس میں تقسیم ہو چکی ہے۔ یہی امر اسرائیل کی پریشانی کا باعث ہے۔
سید مقاومت نے کہا کہ اسرائیل کے داخلی بحران کے مقابلے میں استقامتی بلاک روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے ایران کے صدر آیت الله "سید ابراهیم رئیسی" کے دورہ شام کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ شام کے خلاف 12 سالہ عالمی جنگ کے بعد ایرانی صدر کے دورہ دمشق نے مقاومت کے ساتھ اپنی حمایت کی نشان دہی کی ہے۔ آج مقاومت انسانی جدوجہد بن چکی ہے، مقاومت روحانی طور پر اعلیٰ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ جتنا بھی لوگ استقامتی مرکز کے گرد جمع ہوتے جائیں گے اسرائیل اتنا ہی ضعیف ہوتا جائے گا۔ سید حسن نصر الله نے اسرائیل کے وزیراعظم نتین یاہو اور ان کے کابینہ کے ارکان کی بڑھکوں کا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نہیں بلکہ ہم آپ کو ایک بڑی جنگ کی دھمکی دیتے ہیں۔ یہ عظیم جنگ اسرائیل کی تمام سرحدوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ جس میں لاکھوں مجاہدین محاذ پر سرگرم دکھائی دیں گے۔ انسانی حوالے سے ہمیں کافی برتری حاصل ہے۔ دشمن کی داخلی محاذ پر کمزوری ہماری قوت کا باعث ہے۔
حزب الله کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اسرائیل داخلی طور پر کمزور ہو چکا ہے اور صیہونی اس ریاست سے فرار ہونے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہمیں فلسطین کی آزادی، مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی اور اسرائیل کی نابودی کی امید ہے۔ حالیہ زمانے میں مقاومت کی صلاحیت بڑھ رہی ہے۔ لبنان میں ہماری جنگی ٹیکنالوجی اس بات کی واضح مثال ہے۔ امریکہ اور صیہونی حکومت اس وقت جنگ کا غلط اندازہ لگاتے ہیں جب وہ مزاحمتی محاذ میں موجود کسی گروہ یا جماعت کو کرائے کے فوجی سمجھتے ہیں۔ صیہونی دشمن کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک کاونٹر سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ سید حسن نصر الله نے کہا کہ حزب الله کی حالیہ مشقوں نے اسرائیل اور امریکہ کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے۔ حزب الله کی حالیہ مشقیں کسی بھی جنگ کے لئے تیاری کا اعلان ہیں۔ ہمارے اس اقدام سے مقبوضہ فلسطین میں سیاحت اور شمالی فلسطین میں صیہونی آبادکاروں پر گہرا اثر پڑے گا۔ ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی گرواٹ کی وجہ سے صیہونیوں نے اپنی دھمکیوں کو روک لیا ہے۔
حزب الله کے سربراہ نے صیہونی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ محتاط رہو اور اپنی معلومات اپڈیٹ رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ مغربی کنارے، فلسطین، شام یا ایران میں تم سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے، جس سے تمام خطہ آگ کی لپیٹ میں آ جائے اور ایک بڑی جنگ شروع ہو جائے۔ ممکن ہے تمہارے غلط اندازے کسی بڑی علاقائی جنگ کا سبب بنیں۔ اگر ایسا ہوا تو کم از کم تمہارا وجود باقی نہیں رہے گا۔ سید مقاومت نے اسرائیل کی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی رژیم، عرب حکومتوں سے تو تعلقات بحال کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن عرب اقوام کے ساتھ نہیں۔ یہ رژیم مختلف اقوام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ ہار ماننے، سمجھوتہ کرنے اور ہتھیار ڈالنے کے کلچر کے مقابلے میں مقاومت پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ انہوں فلسطینی مزاحمتی مرکز کی صورتحال کے بارے میں کہا کہ فلسطینی مقاومتی گروہوں کا سب سے مضبوط پوائنٹ یہ ہے کہ وہ نسلی ہیں، کیونکہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین، حقوق اور نظریہ کی وارث ہے۔
سید حسن نصر الله کہا کہ بلاشبہ ایران، فلسطینی مقاومتی گروہوں کی مدد کرتا ہے لیکن پھر بھی حتمی فیصلہ فلسطینی عوام نے کرنا ہے۔ اسرائیلی اپنی ڈیٹرنس پاور کو بڑھانے میں ناکام ہو گئے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں اپنی جارحیت کی قیمت چکانا ہو گی۔ انہوں حالیہ "حروں کے انتقام" کے نام سے فلسطینی جوابی کارروائی میں اسرائیل کی شکست کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا اسرائیل کو اس جنگ میں شکست ہوئی اور اسی وجہ سے وہ شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ دوسری جانب حزب الله کی جنگی مشقوں کے بعد صیہونی آباد کاروں کے درمیان خوف کی فضاء پیدا ہو گئی ہے، جس سے یہ رژیم بیک فُٹ پر گئی ہے۔ دشمن کو پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اپنے خطاب کے اختتام پر سید مقاومت نے کہا کہ خطے میں ایک بڑی جنگ اسرائیل کی نابودی پر ختم ہو گی۔ خطے میں طاقت کا توازن ہمارے لئے خوشی کا باعث ہے۔ اسرائیل حتماََ نابود ہو گا۔ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کے حوالے سے کہا کہ لبنان کے اعلیٰ سطحی وفد کو شام جا کر سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے۔