اسلام ٹائمز۔ گذشتہ روز منگل کی شام لبنان کی مقاومتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل "سید حسن نصر اللہ" نے "سلیمانی انٹرنیشنل پرائز برائے مزاحمتی ادب" کی تقریب سے خطاب کیا۔ سید حسن نصر اللہ نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ وہ دو موضوعات پر بات کریں گے۔ پہلا موضوع جنرل قاسم سلیمانی سے متعلق ہے اور دوسرا لبنان سے۔ جس میں لبنان کے مسائل، صدارتی انتخابات اور بجلی کے بارے میں حکومتی اجلاس کا احاطہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ لبنان، عراق، شام اور یمن کی فتح شہداء کی مرہون منت ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ شہداء نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بعض شہداء کی متاثر کن شخصیت زمان و مکان سے ماورا ہوتی ہے۔ آج جب ہم شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کا شمار زمان و مکان کی قید سے بے نیاز عالمی اسلامی شہداء کی فہرست میں ہونے لگا ہے۔ انہوں نے خطے میں امریکی قبضے کو روکنے پر جنرل قاسم سلیمانی کو گذشتہ دو دہائیوں کا بہترین کمانڈر قرار دیا۔
سید حسن نصر اللہ نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کا خیال تھا کہ عراق اور خطے کے دیگر ممالک پر قبضہ کرنا بہت آسان ہوگا۔ لیکن شہید قاسم سلیمانی کے ہاتھوں تشکیل پانے والے مقاومتی بلاک نے استعمار کے اس منصوبے کو شکست دی۔ انہوں نے خطے پر قبضے کے لیے داعش کی تشکیل جیسے امریکی منصوبوں کا ذکر کیا۔ حزب الله کے سربراہ نے کہا کہ یہ منصوبہ بہت خطرناک تھا، جس محور نے اس منصوبے کی مخالفت کی، اس میں شہید قاسم سلیمانی موجود تھے اور بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔ جنرل قاسم سلیمانی نے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو بھی شکست دی۔ جس کی وجہ سے اسرائیل آج دیوار اور خاردار تاروں کے پیچھے چھپ گیا اور اپنے منصوبے میں ناکامی پر مایوس ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان شہداء کی یاد کو زندہ رکھنا چاہیئے، ان کے واقعات، موقف اور کارناموں کو بیان کرنا چاہیئے۔ حزب الله کے سربراہ نے مزید کہا کہ شہداء ایک بہت بڑی فکری دولت ہیں، جسے زندہ رکھنا چاہیئے۔ آج ہمیں ان الہیٰ اور متاثر کن مثالوں کو بیان کرنا چاہیئے۔
حزب الله کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ آج خطے کو اپنے مسائل کے حل کے لیے شہید سلیمانی جیسے کمانڈروں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران، شام، عراق، لبنان اور یمن کے خلاف اقتصادی دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یمن میں ہر ممکن امکان موجود ہے۔ امریکہ لبنان میں مداخلت کر رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ مسائل موجود ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں شہید سلیمانی اور ان جیسی دوسری شخصیات کی ضرورت ہے۔ سید حسن نصر الله نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں لبنان میں صدارتی انتخابات کے حوالے سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم صدر کے انتخاب کے حوالے سے مذہبی حکام کی تشویش کو سمجھتے ہیں۔ ہمیں فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کا باعث بننے والے الفاظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیئے۔ میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ کوئی سیاسی گروہ ایسا نہیں ہے، جو جان بوجھ کر عیسائیوں اور مارونیوں کے عہدہ صدارت کو ختم کرنا چاہتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی پارلیمنٹ میں کوئی ایسا گروہ نہیں ہے، جس کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو۔
سید مقاومت نے کہا کہ ہر سیاسی دھڑے کو یہ کہنے کا فطری حق حاصل ہے کہ ہم حزب اللہ کا حامی صدر نہیں چاہتے۔ اسی طرح ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم ایسی صدارت کا مطالبہ کریں، جو مقاومت کی کمر میں چھرا نہ گھونپے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے اس بات پر زور دیا کہ صدارتی خلاء کو باقی رکھنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ انہوں نے اس امر کی نشاندہی کی کہ انتظامی عہدے صدر منتخب نہ ہونے کی وجہ سے خالی ہیں۔ ہم اس سلسلے میں مسلمانوں یا عیسائیوں پر الزام نہیں لگاتے۔ ملک میں سیاسی خلاء سے کوئی خوش نہیں۔ ہمیں سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ انہوں نے لبنان میں بجلی کے مسئلے کا ذکر کیا اور اسے اس ملک کے تمام مذاہب اور نسلی گروہوں کا مسئلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے، جس نے صحت اور معیشت سمیت تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے۔
سید حسن نصر الله نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل ہمیں بتایا گیا تھا کہ لبنان کو مزید بجلی فراہم کرنے اور اس کی حالت بہتر بنانے کے لیے ایندھن کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایران سے ملنے والی مدد سے بجلی کی فراہمی کا عمل درست ہو جائے گا۔ یہ ایندھن چھ ماہ کے لیے کافی ہے۔ جس پر ایرانی اور لبنانی حکام نے سرکاری سطح پر ملاقات کی، اس ملاقات کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے بھی صحافیوں کو بتایا کہ ایران، لبنان کو امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ آپشن ابھی تک باقی ہے، لیکن امریکیوں نے لبنان کو ایسا کرنے سے روک دیا اور حکام سے کہا کہ یہ ان کی ریڈ لائن ہے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ حکومت کو ایندھن کے مسئلے کو حل کرنے، بجلی کی فراہمی کے اوقات کار کو بہتر بنانے اور معاہدوں میں توسیع کے لیے ایک اجلاس منعقد کرنا چاہیئے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ حزب اللہ عوامی مسائل کے حل کے لیے حکومتی اجلاس میں شرکت کرے گی اور اپنا فرض پورا کرے گی۔