تحریر: ہادی محمدی
ان دنوں حزب اللہ لبنان کے سابق سیکرٹری جنرل شہید سید عباس موسوی اور شہید عماد مغنیہ کی شہادت کی سالگرہ ہے جنہوں نے خطے میں اسلامی مزاحمت کو پروان چڑھانے میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا اور اپنے عمل کے ذریعے خطے کی اقوام کو انقلاب اسلامی سے آشنا کروایا۔ ان شہداء نے اپنی زندگی اور موت کے ذریعے اسلامی اقدار کو مضبوط بنایا ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم بارہا اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ سید عباس موسوی کی شہادت نے نہ صرف صہیونی رژیم کی سکیورٹی اور اسٹریٹجک برتری کو یقینی نہیں بنایا بلکہ حزب اللہ لبنان کے نئے سیکرٹری جنرل کے طور پر سید حسن نصراللہ کے سامنے آنے کے بعد انہیں بار بار ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ اپنے زوال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اگر ہم سید حسن نصراللہ کو سید عباس موسوی کا ترقی یافتہ تسلسل قرار دیں جو ولایت میں ضم ہو چکے تھے، تو عماد مغنیہ اپنی ذہانت، مہارت اور جدوجہد کے طریقہ کار اور ذرائع میں جدت لانے، مزاحمت، وسعت نظری اور دنیا میں اسلامی مزاحمت کی صلاحیت ثابت ہونے والے تمام عناصر سے تعلقات استوار کرنے کے تناظر میں سید حسن نصراللہ کی کامیابیوں میں حصہ دار ہیں۔ سید حسن نصراللہ بھی ہوشیاری، اخلاص، اخلاق، دین محوری اور ولایت مداری، صداقت، شہداء، زخمیوں اور ان کے اہلخانہ سے عشق کی حد تک محبت اور وفاداری کے لحاظ سے منفرد شخصیت ہیں۔ انہوں نے نہ صرف عماد مغنیہ بلکہ حزب اللہ لبنان کے اسٹرکچر میں موجود تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خود کو بے نظیر قائد اور کمانڈر ثابت کر دیا ہے۔
تنظیمی، سماجی، اقتصادی، سیاسی، سکیورٹی اور فوجی شعبوں میں سید حسن نصراللہ کا علم اور آگاہی نہ صرف دوستوں، ماہرین اور عوام کی زبان پر جاری ہے بلکہ سیاسی رہنما اور صہیونی دشمن بھی اس کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صہیونی حکام نے انہیں "قابل احترام دشمن" کا لقب دے رکھا ہے۔ جس چیز نے سید حسن نصراللہ کو "سید عزیز" اور "تمام اقوام کا عزیز" بنایا ہے وہ اخلاق، عجز و انکساری، آگاہی اور لبنان، فلسطین، عراق، شام، یمن اور بحرین سمیت تمام مظلوم قوموں کیلئے دل جلانے کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ اور عمل ہے۔ وہ اگرچہ ولایت فقیہ کی پیروی میں شہید قاسم سلیمانی کی سطح پر ہیں لیکن ہمیشہ خود کو ولایت فقیہ اور انقلاب اسلامی کا سپاہی قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے اپنی وسیع دینی آگاہی کے تناظر میں ولایت فقیہ کی پیروی اور اطاعت کو قبول کیا ہے اور اس پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے خطے اور دنیا کی مظلوم اقوام کی خاطر جہاد اور مزاحمت کے میدان میں اپنے بیٹے کو بھی قربان کر ڈالا ہے۔ گذشتہ تیس برس کے دوران ان کی سرپرستی میں حزب اللہ لبنان نے عزت، وقار اور کامیابیاں حاصل کی ہیں اور لبنان سے لے کر فلسطین تک اور یمن سے لے کر بحرین تک ظلم و ستم تلے کچلے جانے والی مظلوم مسلمان اقوام کی دلی آرزوئیں پوری کی ہیں۔ غاصب صہیونی دشمن کے خلاف جدوجہد کے دوران بیٹے کی شہادت نے انہیں مزید عزیز اور باوقار کر دیا ہے۔ سید حسن نصراللہ کی شجاعت، خلوص نیت، صداقت اور اعلی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ آج دشمن بھی ان کی بات پر اپنے سے زیادہ یقین کرتا ہے۔
سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ لبنان نے نہ صرف غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں لبنان کی قومی سلامتی کو یقینی بنایا ہے بلکہ دیگر اسلامی ممالک خاص طور پر ایران کی طاقت اور قومی سلامتی کے تحفظ کا بھی باعث بنے ہیں۔ بے شک حزب اللہ لبنان ایک علاقائی مزاحمت اور طاقت ہے۔ اگر گذشتہ تیس برس کے دوران امریکہ اور غاصب صہیونی رژیم میں ایران پر حملے کی جرات پیدا نہیں ہو سکی اور اس نے ایسا فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ سید حسن نصراللہ کی سربراہی میں حزب اللہ لبنان جیسی اسلامی مزاحمتی تنظیم کی موجودگی ہے۔ سید حسن نصراللہ کی محبوبیت اور عزت صرف اہل تشیع یا مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کی عیسائی برادری بھی ان کی حد درجہ قدردان ہے۔
دنیا بھر کے مظلومین سید حسن نصراللہ کو طاقت کا مظہر اور جہاد اور مزاحمت میں اپنی امنگوں کا ترجمان سمجھتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کی یہ محبوبیت بذات خود ایسے بعض سیاسی رہنماوں میں ان کے خلاف پائے جانے والے بغض اور دشمنی کی بڑی وجہ ہے جو فلسطین اور فلسطینیوں کو بیچ چکے ہیں اور اس کے باوجود عرب دنیا اور اسلامی دنیا کی قیادت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر صہیونزم کی چوکھٹ پر بوسہ دیتے نظر آتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ، رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے مالک اشتر ہیں اور مسلمان اقوام کی آزادی اور نجات کیلئے انقلاب اسلامی کی زبان ہیں۔ وہ صہیونزم اور امریکہ سے وابستہ آمرانہ اور کرپٹ حکومتوں کیلئے ڈروانا خواب ہیں۔ انہوں نے اسلامی مزاحمت کو ایک گروہ سے بالاتر لا کر علاقائی سطح پر فیصلہ ساز طاقت میں بدل ڈالا ہے۔