امام خمینی

صدر اسلام کے مسلمانوں اور آج کے مسلمانوں میں فرق

ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ایسا کیا ہوا کہ صدر اسلام میں مسلمانوں کسی بھی جنگ کا اعلان نہیں کیا اور آہستہ آہستہ کامیاب بھی ہو رہے تھے لیکن نیم قرن بعد جب تعداد بھی زیادہ ہے اور جنگی سامان بھی ہے خود کفیل بھی ہیں لیکن ان سب کے با وجود وہ اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ہیں

صدر اسلام کے مسلمانوں اور آج کے مسلمانوں میں فرق

ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ایسا کیا ہوا کہ صدر اسلام میں مسلمانوں کسی بھی جنگ کا اعلان نہیں کیا اور آہستہ آہستہ کامیاب بھی ہو رہے تھے لیکن نیم قرن بعد جب تعداد بھی زیادہ ہے اور جنگی سامان بھی ہے خود کفیل بھی ہیں لیکن ان سب کے با وجود وہ اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ہیں ایسا کیا ہے کہ وہ ویسے تھے اور ہم ایسے ہیں یعنی صدر اسلام میں ان کی تعداد بھی کم جنگی سامان بھی نہیں تھا لیکن پر بھی کامیاب تھے لیکن آج ہمارے پاس سب کچھ ہے تعداد بھی زیادہ خود کفیل بھی ہیں لیکن پھر بھی ہم نے اپنا سب کچھ گنوا دیا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ صدر اسلام میں جن افراد نے پیغمبر اکرم صلی اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی گر چہ ان کی تعداد کم تھی لیکن وہ اپنے مسلک کے پابند تھے اور اسلام کے معتقد تھے ان کے لئے اس دنیاوی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں تھی وہ شہادت کو اپنے لئے سعادت سمجھتے تھے اور اسی جذبے سے وہ ایران اور روم پر غالب ہو گئے لیکن پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں کا ایمان ضعیف ہوتا گیا اور انہوں نے مادی زندگی سے دل لگانا شروع کر دیا جس کی وجہ سے آج یہ حال ہے۔

امام خمینی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی (رہ) نے صدر اسلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ایسا کیا ہوا کہ صدر اسلام میں مسلمانوں کسی بھی جنگ کا اعلان نہیں کیا اور آہستہ آہستہ کامیاب بھی ہو رہے تھے لیکن نیم قرن بعد جب تعداد بھی زیادہ ہے اور جنگی سامان بھی ہے خود کفیل بھی ہیں لیکن ان سب کے با وجود وہ اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ہیں ایسا کیا ہے کہ وہ ویسے تھے اور ہم ایسے ہیں یعنی صدر اسلام میں ان کی تعداد بھی کم جنگی سامان بھی نہیں تھا لیکن پر بھی کامیاب تھے لیکن آج ہمارے پاس سب کچھ ہے تعداد بھی زیادہ خود کفیل بھی ہیں لیکن پھر بھی ہم نے اپنا سب کچھ گنوا دیا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ صدر اسلام میں جن افراد نے پیغمبر اکرم صلی اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی گر چہ ان کی تعداد کم تھی لیکن وہ اپنے مسلک کے پابند تھے اور اسلام کے معتقد تھے ان کے لئے اس دنیاوی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں تھی وہ شہادت کو اپنے لئے سعادت سمجھتے تھے اور اسی جذبے سے وہ ایران اور روم پر غالب ہو گئے لیکن پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں کا ایمان ضعیف ہوتا گیا اور انہوں نے مادی زندگی سے دل لگانا شروع کر دیا جس کی وجہ سے آج یہ حال ہے۔

اسلامی تحریک کے رہنما نے فرمایا کہ اس وقت عالم اسلام کو اس بات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس عقب افتادگی سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے کی ضرورت ہمیں سالانہ جلسات منعقد کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ عملی طور پر کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا اور سب کو مل عالم اسلام اور مسلمانوں کے حالات بدلنے کی ضرورت ہے۔

ای میل کریں