ایمان کا زائل ہونا

ایمان کا زائل ہونا

غیبت کرنا، بہت سی بری خصلتوں کی طرح، آہستہ آہستہ ایک ذہنی بیماری میں بدل جاتا ہے

غیبت کی حقیقت اور معنی یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے بارے اس کی پیٹھ پیچھے میں کوئی ایسی بات کہے جسے سن کر وہ پریشان ہو جائے۔ غیبت، قرآن، احادیث، عقل اور اجماع کے مطابق حرام ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

اے ایمان والو! ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے بات مت کریں۔ کیا تم اپنے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتے ہو، حالانکہ وہ مر چکا ہے؟! پس تقویٰ اختیار کرو کیونکہ خدا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ( حجرات، 12)

 

غیبت اور تہمت میں فرق کے بارے میں ایک حدیث میں آیا ہے:

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا: غیبت یہ ہے کہ جب تم اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات کہو جو اللہ تعالیٰ نے اس سے چھپائی ہو، لیکن وہ چیز جو اس کے وجود میں ظاہر ہو، جیسے عجلت اور جلد بازی، (کہنا) وہ غیبت نہیں ہے۔ اور الزام لگانا اور تہمت یہ ہے کہ اس کے بارے میں کچھ کہنا جو اس میں نہیں ہے۔ (اصول کافی،ج‌۲، ص۳۵۸)

 

امام خمینی (رح) غیبت کی مذمت کے بارے میں فرماتے ہیں:

ہمیں  چاہیے کہ اپنے باطن کی بیماریوں  کا معالجہ اور قلبی امراض کی چارہ جوئی کریں ۔ احادیث شریفہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان کی کمزوری، ضعف اور خلوص کا نہ ہونا اخلاقی مفاسد اور دیگر اعمال کی برائی کا موجب بنتا ہے، اسی طرح یہ برائیاں  بھی ایمان میں  کمی، بلکہ اس کے زائل ہونے کا باعث بنتی ہیں  اور یہ بات خود ایک قسم کے برہان ودلیل کے مطابق ہے کہ جو اپنی جگہ ثابت شدہ ہے۔

جان لو کہ یہ معصیت ونافرمانی بہت سے پہلوؤں  سے دیگر معصیتوں  سے زیادہ شدید اور اس کے اثرات اور عواقب بھی زیادہ ہیں  اور وہ یہ ہے کہ اس میں  حق اﷲ کے ساتھ ساتھ حق الناس بھی شامل ہے۔ خداوند عالم غیبت کرنے والے کو اس وقت تک معاف نہیں  کرے گا کہ جب تک وہ راضی نہ ہوجائے کہ جس کی غیبت کی گئی ہو۔ جیسا کہ حدیث شریف میں  چند مختلف طریقوں  سے اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔

عن محمّد بن الحسن فی المجالس والاخبار باسنادہ عن أبي ذر، عن النبي (ص) في وَصِیَّتِہِ لَہُ قالَ: {یٰاأباذر! ایّٰاکَ وَالْغِیبَۃَ، فِاِنَّ الْغِیْبَۃَ أشَدُّ مِنَ الزِّنٰا۔ قُلْتُ: وَلِمَ ذٰاکَ یٰارَسُولَ اﷲِ؟ قالَ: لِأنَّ الرَّجُلَ یَزْنِي فَیَتُوبُ اِلَی اﷲِ، فَیَتُوبُ اﷲُ عَلَیْہِ، وَالْغِیْبَۃُ لاٰ تُغْفَرُ حَتّیٰ یَغْفِرَہٰا صٰاحِبُہا}  ’’حضرت رسول اکرم (ص)  نے حضرت ابوذر غفاری  (رض) کو اپنی وصیتوں  میں  فرمایا:  اے اباذر! غیبت سے بچو، اس لیے کہ غیبت زنا سے زیادہ بدتر ہے۔ ابوذر نے عرض کی: یا رسول اﷲ  ؐ ایسا کیوں  ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:  اگر زانی توبہ کرے تو خدا اس کو معاف کردیتا ہے لیکن غیبت اس وقت تک نہیں  بخشی جائے گی کہ جب تک وہ معاف نہ کرے کہ جس کی غیبت کی گئی ہو‘‘۔ (بحارالانوار، ج ۷۲، ص ۲۴۸)

(چہل حدیث، ص ۳۰۷)

 

غیبت کرنا، بہت سی بری خصلتوں کی طرح، آہستہ آہستہ ایک ذہنی بیماری میں بدل جاتا ہے، اس طرح کہ غیبت کرنے والا اپنے کام سے لطف اندوز ہوتا ہے اور دوسروں کی مسلسل بے عزتی کرنے سے اطمینان اور خوشی محسوس کرتا ہے، اور یہ سب سے خطرناک اخلاقی مراحل میں سے ایک ہے۔ لیکن غیبت کا مختصر علاج یہ ہے کہ ان آیات اور روایات کو یاد رکھا جائے جو غیبت کی سزا میں بیان ہوئی ہیں۔ اگر وہ ان پر یقین رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ خدا کے غضب کا ذریعہ ہے۔ (أطیب البیان فی تفسیر القرآن، ج‌۱، ص۳۴۰)

ای میل کریں