واضح رہے کہ قضا وقدر کے مختلف مراتب ہیں انہیں مراتب کے لحاظ سے ان کے احکام مختلف ہوتے ہیں:
[۱] وہ حقائق ہیں کہ جو حضور علم میں فیض اقدس کی تجلی سے ظہور اسماء وصفات کی تبعیت میں مقدر ہوتے ہیں اور اس کے بعد اقلام عالیہ اور الواح عالیہ میں ظہور کے مطابق تجلی فعلی سے ان کی تقدیر وتحکیم ہوتی ہے، ان مراتب میں تعمیرات اور تبدلات واقع نہیں ہوتے اور قضائے حتمی سے وہ حقائق مجردہ ’’لا یتبدل‘‘ (نہ بدلنے والا حتمی فیصلہ) ہیں جو حضرات اعیان اور نشئہ علمیہ میں واقع ہوتے ہیں اور اقلام والواح مجردہ میں نزول کرتے ہیں ۔
[۲] اس کے بعد یہ حقائق برزخی ومثالی صورتوں کے ساتھ دوسرے الواح اور اس کے نچلے عالم میں ظہور کرتے ہیں جو عالم ’’خیال منفصل‘‘ اور ’’خیال الکل‘‘ ہے اسی کو علماء اشراق عالم ’’مثل المعلقہ‘‘ کہتے ہیں اس عالم میں تعمیرات اور اختلاف کا وقوع ممکن ہے بلکہ واقع ہوا ہے۔
[۳] اس کے بعد تقدیرات اور اندازہ گیری عالم طبیعت پر موکل ملائکہ کے ذریعہ ہوتی ہے اس لوح قدر میں تغیرات اور تبدلات ہوتے ہیں بلکہ یہ خود صورت سیالہ، حقیقت متصرمہ ومتدرجہ ہے اس لوح میں شدت وضعف کو قبول کرنے والے حقائق اور سرعت، سستی، زیادتی اور نقص کو قبول کرنے والے حرکات ہیں ان سب کے باوجود انہیں اشیاء ’’یلی اللّٰہی‘‘ اور وجہ غیبی کہ جو حق کی طرف دلالت کرنے والا ہے اور فیض منبسط اور ظل ممدود کے ظہور کی صورت ہے اور علم فعلی حق کی حقیقت ہے کسی جہت سے بھی قابل تغییر وتبدیل نہیں ہے۔
بالجملہ، تمام تغیرات اور تمام تبدلات، مثلاً عمر میں اضافہ اور تقدیر ارزاق حکما کے نزدیک لوح قدر علمی کہ جو عالم مثال ہے اور راقم الحروف کے نزدیک لوح ’’قدر عینی‘‘ کہ جو خود محل تقدیرات ہے اس پر موکل ملائکہ کے ذریعہ واقع ہوتے ہیں اس لیے یہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ {لیلۃ القدر} ولی کامل کی توجہ تام اور اس کی سلطنت ملکوتیہ کے ظہور کی رات ہے اس لیے ولی کامل اور اپنے زمانہ کے امام ؑکے نفس شریف کے توسط سے عالم طبیعت میں تغییرات اور تبدیلات واقع ہوتے ہیں آج (ولی کامل امام عصر ؑاور قطب زمان) حضرت بقیۃ اﷲ فی الارضیین، سیدنا ومولانا، امامنا، ہادینا، حجۃ ابن الحسن العسکری (ارواحنا لمقدمہ فداء) ہیں (لہذا یہ تبدیلیاں انہیں کے توسط سے ہوتی ہیں) لہذا یہ عالم طبیعت کی جس حرکت کو چاہیں کم کردیں اور جسے چاہیں زیادہ کر دیں جسے چاہیں زیادہ رزق دیں جسے چاہیں کم رزق دیں ولی کامل کا ارادہ حق کا ارادہ ہے، بلکہ وہ ارادہ ازلیہ کی شعاع اور اس کا سایہ ہیں اور وہ فرامین الٰہی کے تابع ہیں جیسے کہ خدا کے ملائکہ بھی اپنا تصرف نہیں رکھتے ان کے تمام تصرفات، تمام ذرات تصرف الٰہی اور اس لطیفہ غیبیہ الٰہیہ سے وابستہ ہوتے ہیں (فَاسْتَقِمْ کَمٰا أُمِرْتَ)۔
(تفسیر قرآن مجید، ج 5، ص 458)